About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, September 10, 2013

افراد کے ہاتھوں میں

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق


ںقومیں اور ادارے افراد سے بنتے ہیں ۔ ملکوں اور اداروں کو افراد ہی چلاتے ہیں ....
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یہ افراد کی نیت اور اہلیت پر منحصر کہ ملک اور ادارے کو بام ِعروج پر پہنچا دیں یا پسماندگی کی پستیوں میں گرا دیں۔اہلیت کا مداوا اور ازالہ محنت سے اور تمام تر صلاحیتیں بروئے کا ر لاکر بڑی حدکیا جا سکتا ہے،نیت میں کھوٹ کا کو ئی علاج نہیں۔اہلیت اور قابلیت خدا داد صلاحیت جبکہ بد نیتی خود ساختہ لعنت ہے ۔بدنیتی لالچ حرص، ہوس،اپنے حصے سے بڑھ کر حصول کی خواہش سے جنم لیتی ہے ۔اسکے شواہد وطن کی درماندگی اور اداروں کی پسماندگی کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکابرین کی نیک نیتی نے ہمیں آزاد وطن دلایا ۔ زمام اقتداربدنیتوں کے دستِ خانہ خراب میں آئی توملک نہ صرف ٹوٹا بلکہ بچے ہوئے ملک کی سلامتی پر حرف بھی آیا، وقار خاک میں ملا اور آج ہم بحرانوں کی دلدل میں دھنسے اور مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ادارے بد نظمی سے زیادہ ذمہ داروں کی بد دیانتی کے باعث سسک اور انسان بھوک و افلاس سے بلک رہے ہیں مگر ملک اور اداروں کو چلانے والے اکثر افراد خوش ،خوشحال اور خود کواعلیٰ و ارفع مخلوق سمجھتے ہیںلیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ سب بہاریں اس گلشنِ پاکستان اور اسکے اداروں کی مرہونِ منت ہیں۔ جس شاخ پر بیٹھے اس کو کاٹنے کے مظاہر قوم نے کئی بار ملاحظہ کئے۔عبرت تو عقل والوں کیلئے ہے‘ جو اب بھی وہی عمل دہرا رہے ہیں ان کا انسانیت سے تعلق ہے نہ عقل و دانش انکے قریب سے گزری ہے۔
ملک میں G T Sکے نام پر سرکاری مسافر بسیں چلا کرتی تھیں۔ اس محکمے کو چلانے والوں نے یہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ذبح کرڈالی ۔آج اس محکمے کے کئی ملازم بھیک مانگتے یا ریڑھی لگانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے شائد گھپلے نہ کئے ہوں لیکن انہوں نے کسی لٹیرے کا ہاتھ بھی نہیں روکا۔ہر ضلع کی حد اور شہر کے اندر موصول چونگیاں ہوا کرتی تھیں۔اسکے اکثر ملازم ستم گر تھے۔ انکے روئیں روئیں میں بے ایمانی سمائی ہوئی تھی۔ ملازم دیانت سے کام کرتے تو یہ محکمہ آج بھی برقرار اور انکی روٹی روزگار کا ذریعہ بھی قائم رہتا۔ان لوگوں نے بھی ایک جھٹکے ہی میں ”سون مرغی“ ذبح کر ڈالی اور آج اکثر در بدر ہیں۔
 آج ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل، واپڈا اور پی ٹی اے سمیت بہت سے ادارے ماضی کے دھندلکوں میں گُم ہوجانے والی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی طرح کھٹارا بن چکے ہیں۔ ان کی بربادی میں کرپشن ہی اوّلین و آخرین وجہ ہے۔ وزیرریلوے کے بقول مشر ف دور میں چین سے 69 غیر معیاری انجن منگوائے گئے۔ ۔۔اگلے دور میں ریلوے کو کنگال ہی کردیا گیا۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے قومی اسمبلی کو بتایا ” پی آئی اے کے پاس 22 طیارے اور 6 سو پائلٹ ہیں جبکہ عملہ کی تعداد 19 ہزار ہے، وزیراعظم نے پی آئی اے کو اپنے خراب طیارے قابل استعمال بنانے کیلئے 12 ارب 70 کروڑ روپے کا پیکیج دیا ہے۔اس موقع پر وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے ایوان کو یقین دلایا کہ پی آئی اے سے پیپلز پارٹی سے وابستگی کی بنا پر کسی کو ملازمت سے برخاست نہیں کیا جائے گا۔“ویسے تو پی آئی اے کے پاس پچاس سے زائد طیارے ہیں‘ ان میں صرف 22 اپریشنل باقی خراب ہوکر ”دھرنے“ پر بیٹھے ہیں۔ آج ایک جہاز اڑانے پر27 پائلٹوں سمیت عملے کے 900 افراد تعینات ہیں۔یہ تعداداپریشنل جہازوں کیمطابق مقرر کردی جاتی رہے تو یقیناً ایک جہاز بھی گراﺅنڈ نہ ہو۔ 80کی دہائی میں دبئی نے پاکستان سے دو جہاز لیز پر اور عملہ مستعار لے کر ایمریٹس ائیر لائنز تشکیل دی‘ وہ آج دنیا کی ہزاروں ائر لائنز میں دوسرے اور پی آئی اے شایدکارکردگی،گھاٹے اور معیار کے حوالے سے آخر میں دوسرے نمبر پر ہو۔ پی آئی اے ہی کی سسٹر آرگنائزریشن کی کرپشن کی لافانی مثال سامنے بھی آئی ہے۔ اس کی طرف سے کراچی میں غیرقانونی کارگو اتارنے اور اربوں روپے کی خورد برد کا انکشاف ہوا ہے۔ پاک فضائیہ کی ائر انٹیلی جینس کی رپورٹ کے مطابق سی اے اے کے ڈائریکٹر آپریشنز، ڈائریکٹر ائر ٹرانسپورٹ، جی ایم بلنگ، ائر ٹریفک کنٹرولر اربوں کے گھپلوں کے ذمہ دار ہیں۔ فضائی حدود سے گزرنے اور پاکستان آنے والی پروازوں کے ریکارڈ میں نمایاں فرق ہے۔ کراچی میں نیٹو طیاروں سے کارگو اتارا اور لوڈ کیا جاتا تھا۔
 اس سے قبل بندرگاہوں سے اسلحہ سے بھرے 19 ہزار کنٹینر بھی غائب ہوگئے تھے۔ اس سے پورٹس اینڈ شپنگ کا عملہ لا علم نہیں ہوسکتا ۔ واپڈا کو چور اور اندر کے ”رسہ گیر“ لے ڈوبے۔ پی ٹی اے خسارے میں جاتی دیکھی تو یہ آدھی فروخت کردی گئی۔اس کی کارکردگی ہنوز اطمینان بخش نہیں ہے۔شاید اسکے پورے حصص اتصالات فروخت کردئیے جائیں۔سٹیل مل ایک بار کوڑیوں کے بھاﺅ فروخت ہوئی۔سپریم کورٹ نے بروقت نوٹس لیکر اسے بچالیا یہ پھر دریدہ ہاتھوںاور بریدہ دامن میں ڈال دی گئی تو اس کا گرنا اور بکھرنامقدر تھا۔



آخر حکومت کب تک خسارے میں جانیوالے اداروں کی خدمت کرتی رہے گی؟ شاید حکومت میں ادارے ڈبونے والوں کی قماش کے با اثر افراد کی موجودگی تک۔۔۔ لیکن ایک دن تو ان کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی جہان میں!۔۔۔ ادارے منافع میں رہیں تو ملازمین کا تحفظ ترقی اور خوشحالی بھی یقینی ہے۔ یہ ڈوبے تو بربادی یا نجکاری کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔اس صورت میں عملے کی وہی حالت ہوگی جو جی ٹی ایس اورچونگیات کے ملازموں کی زندگی جہنم بن کر ہوئی۔بہتر ہے کہ آسمان سے ٹوٹ کر بکھرنے والے ستارے کے بجائے ملت کے مقدر کا ستارہ بنتے ہوئے ہوئے اداروں کو خسارے سے نکالنے اور انہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے عملہ اپنا کردار ادا کرے۔ جہاں بدعنوانی،اقربا پروری نظر آئے اس کے ذمہ دار کے گریبان پر ہاتھ ڈالے جس طرح یونین والے اپنے حقوق کیلئے انتظامیہ سے بھِڑ جاتے ہیںاسی جذبے سے ادارے کے مفادات کا تحفظ کرنے کا عزم کرلیں تو یقینا ادارے خسارے سے نکل کرترقی کی معراج اور اوجِ ثریاتک پہنچ سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment