بے ضرر اے پی سی
ابہام، تضادات اور خدشات کے دائرے میں گھومتی آل پارٹیز کانفرنس کو ناکام قرار نہیںدیا جا سکتا۔ اس کانفرنس کا مقصد ایسا لائحہ عمل طے کرنا تھا جس پر عمل کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مشترکہ لائحہ عمل یہ طے ہوا کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائینگے لیکن یہ لائحہ عمل ماضی کے اعلانات‘ بیانات اور اقدامات کے تناظر میں سوالیہ نشان ہے۔ حکومت نے شاید کوئی ہوم ورک کر رکھا ہو۔حکومتی سطح پر بتایا گیا ہے کہ شدت پسندی‘ انتہا پسندی اور فرقہ واریت میں69 گروہ یا گروپ ملوث ہیں۔ طالبان کے بھی کئی گروپ ہیں۔سب کے ساتھ تو مذاکرات نہیں ہونگے۔ ان میں ہر ایک خود کو اتنا ہی اہم سمجھتا ہے جتنا اعجاز الحق اور شیخ رشید جن کو اے پی سی میں نہیں بلایا گیا توانکی زبان انگارے برسا رہی ہے۔ یہ صرف زبان میں استعمال کر سکتے ہیں ، جبکہ شدت پسندوں کے پاس تو بندوق گولیاں اور گولا بارود بھی ہے۔ اے پی سی میں 12 جماعتوں کے 28 رہنما شریک ہوئے۔ مخدوم امین فہیم بائیکاٹ نہ کرتے تو رہنماؤں کی تعداد 29 ہوتی۔ مخدوم صاحب کو گلہ تھا کہ وہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہیں۔ ان کو وزیراعظم کے ساتھ بٹھایا جائے۔ انکی سیٹ امتیاز شیخ اور حیدر عباس رضوی کے درمیان رکھی گئی تھی۔ اس سے ایک روز قبل مخدوم صاحب ناراض ہو رہے تھے کہ ان کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ مخدوم صاحب بلاشبہ پی پی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہیں۔ یہ پارٹی خانہ پُری کیلئے بنائی گئی اور اسکے عہدیداروں کی حیثیت پارٹی کے اصل قائدین کے نزدیک کاغذی شیر جیسی رہی ہے۔ ایسا ہی دوسری پارٹیاں سمجھتی ہیں البتہ مخدوم صاحب کا ذاتی حیثیت میں بڑا نام، مقام اور احترام ہے۔۔۔عالمی بنک کے ایک ڈائریکٹر محمد شعیب کو ایوب خان نے درآمد کرکے وزیر مالیات لگادیا تھا۔انہوں نے وزیر بننے کے باوجود عالمی بنک کی نوکری نہ چھوڑی‘ وہ ایوب کے ساتھ غالباً آسٹریلیا کے دورے پر گئے۔ وہاں کشتیوں میں سیرو تفریح کا پروگرام ترتیب دیا۔ وزیر خزانہ محمد شعیب کو پچھلی نشستوں پر جگہ دی گئی جس پر انہوں نے مخدوم صاحب کی طرح بیچ تاب کھائے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ان کی کیفیت کو بھانپ کر انتظامیہ نے کہا کہ ان کو عالمی بنک کے ڈائریکٹر کا پروٹوکول دیا گیا۔
پاکستان میں کئی معاملات میں بے شمار اے پی سیز ہو چکی ہیں۔ ان میں مشہور زمانہ 14 اپریل 1988ء کے جنیوا معاہدے سے قبل قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے محمدخان جونیجو نے مارچ میں بلائی تھی۔ محمدخان جونیجو کمزور حکومت کے طاقتور وزیراعظم تھے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی پسند اور ان گملے کی غیر جماعتی انتخابات کی آبیاری کی پیداوار تھے۔ وزیراعظم جونیجو نے ایک موقع پر جرأت مندانہ بیان دیا کہ جمہوریت اور مارشل لاء ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء تو ہٹایا لیالیکن انہوں نے 58 ٹو بی کی تلوارمیان میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لی تھی ۔ جنیوا معاہدہ امریکہ‘ روس‘ پاکستان اور افغانستان کے مابین ہوا۔ جنرل ضیاء فوری معاہدے حق میں نہیں تھے جبکہ جونیجو کی سوچ اور پالیسی اسکے برعکس تھی۔ جونیجو نے صدر اور آرمی چیف کی بات سننے کے بجائے آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی جس میں بے نظیر بھٹو اور شاہ احمد نورانی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔ بینظیربھٹو اس کانفرنس میں اس شرط پر شامل ہوئیں کہ جنرل ضیا کو نہیں بلایا جائیگا۔ مولانا نورانی نے جونیجو صاحب سے اس اجلاس میں برملاکہا تھا کہ پانی پاک کرنا ہے تو پہلے کتے کو کنویں سے نکالیں۔ جنرل ضیاء پہلے ہی ناراض تھے‘ لہٰذا نورانی صاحب کی بات تو گویا ان کو لڑ گئی ۔ معاہدے سے چار روز قبل اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہو چکا تھا‘جونیجو اس سانحہ کا ذمہ دار بعض دوسرے جرنیلوں کو سمجھ رہے تھے اور ان کیخلاف ایکشن کی تیاری کررہے تھے کہ ضیاء الحق انکے ارادے بھانپ گئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا جمہوریت کا پودا اکھاڑ پھینکا۔ جونیجو حکومت کیلئے یہ گول میز کانفرنس مضر ثابت ہوئی۔ میاں صاحب نے بڑی دانشمندی سے کام لیا‘ اے پی سی میں 12 سیاسی اور تیرہویں ’’فوجی جماعت ‘‘کو شرکت کی دعوت دی۔یہ اے پی سی،حکومت ،سیاسی پارٹیوں، فوج اور طالبان سمیت ہر کسی کیلئے بے ضررہے اور کئی حوالوں سے کامیاب بھی رہی۔ سب سے بڑی کامیابی سیاسی اور فوجی قیادت کے مابین ہم آہنگی اور یکجہتی ہے۔ سیاسی قیادت کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ فوج کو طالبان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کیلئے آمادہ کر لیا۔ کچھ پارٹیاں بشمول عمران ، دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھنے پر آمادہ نہیں تھے۔ فوج کی بریفنگ سے وہ اسے اپنی اور پاکستان کے مفاد کی جنگ ماننے پر مائل ہو گئے۔ تمام پارٹیوں نے فوج پر اعتماد کا اظہار بھی کر دیا‘ جبکہ ان میں فوج کیخلاف زہر اگلنے والے بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ 22 اگست کو وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی میٹنگ میں شدت پسندوں سے مذاکرات کیلئے ہتھیار پھینکنے کی شرط رکھی گئی تھی‘ اس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے‘ اے پی سی میں غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔ یقیناً شدت پسندوں کو ہتھیار چھوڑنے کو کہا جائیگا تو ایسا ہی مطالبہ وہ فوج سے بھی کرینگے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ فاٹا میں فوج بھیجنے سے ملک میں بدامنی کی آگ لگی… امن کے قیام کا بظاہر آسان ساحل یہ ہے کہ فوج کو فاٹا سے واپس بلا لیا جائے‘ اس طرح طالبان بھی اپنے گھروں کو لو ٹ جائینگے‘ لیکن یہ جتنا سوچنا آسان ہے ‘شاید کرنا اتنا آسان نہ ہو۔
دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے مذاکرات اپنی جگہ‘ سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے عزم و ارادے اور حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت اورفاٹا سے جنم لینے والی شدت پسندی کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں آپس میں ملتے ہیں۔ فرقہ ورانہ شدت پسندوںکا حکومت کو بخوبی علم ہے، انکی سرپرستی ہمارے عزیز ترین مسلم ممالک کرتے ہیں۔ کیا ان شدت پسندوں کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے ہونگے؟ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو کیا ان کیخلاف حکومت اسی طرح کا اپریشن کرنے کی جرأت کریگی جیسا کہ دہشت گردوں کیخلاف مذاکرات کی خدانخواستہ ناکامی پر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ؟
No comments:
Post a Comment