نوبل پرائز۔۔۔ حق بحق دار رسید؟
نوبل امن پرائز کے لئے ملالہ یوسف زئی کا نام بھی 259 افراد کی لسٹ میں سرِفہرست تھا۔ پاکستان میں ملالہ کے لئے لوگ دعا گو تھے تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ کو اس دنیا کے سب سے بڑے اعزاز کا حقدار نہیں سمجھتے۔ ان کی رائے میں ملالہ نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ اسے نوبل امن انعام دیا جائے۔ 2013ءکے نوبل انعام کی تقریب ناروے کے شہر اوسلو میں ہوئی جہاں امن کے نوبل انعام سے کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے آرگنائزیشن فار دی پروہیبشن آف کیمیکل ویپن (او پی سی ڈبلیو) کو نوازا گیا۔ کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے کام کرنے والے عالمی ادارے او پی سی ڈبلیو کا تعلق نیدر لینڈ سے ہے جو 28 اپریل 1997ءمیں دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے غرض سے قائم کیا گیا اور اس کے رکن ممالک کی تعداد 189 ہے۔ اوپی سی ڈبلیو کے 30 ماہرین ان دنوں اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے ساتھ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا کام کررہے ہیں جبکہ اسی تنظیم نے عراق میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کیلئے اہم کردار ادا کیا۔
پرائزاوپی سی ڈبلیو کو جانے پرملالہ کے چاہنے والوں کو مایوسی ہوئی۔ شیری رحمن اور ملیحہ لودھی جیسی معتبر خواتین بھی نے کہا کہ نوبل انعام سیاسی بنیاد پر دیا گیا۔ ان کی اس بات میں بڑا وزن ہے۔ تاہم اس انعام کی تفویض کے بعد ملالہ یوسف زئی نے جو کچھ کہا وہ حقیقت ہے، سچ اور بالکل درست ہے۔
واشنگٹن میں اوباما سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ملالہ یوسفزئی نے کہا” مجھے نوبل پرائز نہ ملنے پر کوئی دکھ نہیں ہے۔ نوبل انعام کے لئے نامزدگی ہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ میں خود کو فی الحال نوبل انعام کا حقدار نہیں سمجھتی‘ ابھی میں نے بہت کچھ کرنا ہے۔ میں نے بچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے لیکن ابھی ایسا کچھ نہیں کیا کہ خود کو نوبل پرائز کا حقدار ٹھہراﺅں۔“ یہی بات پاکستان میں موجود ایک حلقہ بھی کہہ رہا ہے۔ نوبل انعام کے اعلان سے ایک روز قبل ملالہ یوسف زئی کو یورپی یونین کا سخاروف ایوارڈ دیا گیا۔ اس انعام کے لئے ایڈورڈ سنوڈن بھی نامزد ہوئے۔ سنوڈن نے امریکی حکومت کا اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کا پردہ فاش کیا تھا جس پر اسے امریکہ سے بھاگنا پڑا۔ آج کل وہ روس کی پناہ میں ہے۔ سخاروف انعام سابق سوویت یونین کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور منحرف رہنما آندرے سخاروف کی یاد میں ”سوچ کی آزادی“ کے لئے ہر سال دیا جاتا ہے۔ کوئی ملک شیخ مجیب یا شکیل آفریدی کے نام سے امن ایوارڈ کا اعلان کرے تو ہمیں کیسا لگے گا؟ ایسا ہی روس کو بھی سخاروف پرائز پر لگتا ہوگا۔ نوبل پرائز کے لئے اگر سیاسی وجوہات اور کچھ قوتوں کی خواہشات کا عمل دخل ہے تو اس مرتبہ فیصلہ یقینا میرٹ سے ہٹ کر پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا گیا۔
نوبل امن انعام، عالمی امن میں بہترین کردار ادا کرنیوالی شخصیت یا ادارے کو دیا جاتا ہے۔ 259 نامزدگیوں میں انعام حاصل کرنیوالے مذکورہ ادارے کے ساتھ پیوٹن، بل کلنٹن اور بانکی مون جیسی شخصیات کا نام شامل تھا۔ امریکی صدر اوباما کو بھی یہ انعام مل چکا ہے۔ اس کا امریکی صدارت سنبھالنے کے بعد ایک سال تو کیا ایک مہینہ، ہفتہ اور دن بھی خون آشامی سے خالی نہیں۔ چند ہفتے قبل اوباما کی سربراہی میںامریکہ شام پر دمشق میں باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگا کرحملے کی پوری تیاری کر چکا تھا۔ اس کے اتحادی شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے امریکہ سے بھی زیادہ بے تاب نظر آرہے تھے۔ امریکی فوج نے شام کا گھیراﺅ کرلیا تھا۔ میزائل اور راکٹ نشانہ لے چکے تھے ۔صرف اوباما کی طرف سے بِگل بجانے کا انتظار تھا۔ اوباما نے کہا کہ انہیں اقوام متحدہ اور اپنی کانگریس کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں روسی صدر پیوٹن سامنے آئے، جارحیت پر تیار امریکہ کو حملہ سے للکارنے کے انداز میں باز رہنے کو کہا۔ ان کی آواز میں آواز دیگر متعدد ممالک نے بھی ملائی۔ اس پر امریکہ نے بادل نخواستہ شام پر چڑھائی کا فیصلہ واپس لے لیا۔ روس درمیان میں نہ آتا تو امریکہ اور اتحادیوں کی بمباری سے کتنے شامی ہلاک ہوتے، اس کا عراق اور افغانستان کی تباہی کو مدنظر رکھ کر آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانیت کو ایک اور تباہی سے بچانے میں روس نے بہترین کردار ادا کیا۔ اس سال نوبل پرائز کا حقدار روسی صدر پیوٹن کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا اور سب سے کم مستحق ملالہ یوسف زئی تھی۔ ملالہ کی عالمی امن کے لئے کوئی کوشش نظر نہیں آئی، تعلیم کے فروغ کے لئے بھی فی الوقت اس کی جدوجہد اس پائے کی نہیں کہ اسے کوئی عالمی ایوارڈ دے دیا جائے۔ البتہ اس نے خطرات مول لے کر اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا۔ اس کی پاداش میں اس پر مبینہ طور پر حملہ ہوا۔ اس جرا¿ت پر اسے جو بھی پذیرائی ملے‘ وہ بجا ہے۔
پرائزاوپی سی ڈبلیو کو جانے پرملالہ کے چاہنے والوں کو مایوسی ہوئی۔ شیری رحمن اور ملیحہ لودھی جیسی معتبر خواتین بھی نے کہا کہ نوبل انعام سیاسی بنیاد پر دیا گیا۔ ان کی اس بات میں بڑا وزن ہے۔ تاہم اس انعام کی تفویض کے بعد ملالہ یوسف زئی نے جو کچھ کہا وہ حقیقت ہے، سچ اور بالکل درست ہے۔
واشنگٹن میں اوباما سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ملالہ یوسفزئی نے کہا” مجھے نوبل پرائز نہ ملنے پر کوئی دکھ نہیں ہے۔ نوبل انعام کے لئے نامزدگی ہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ میں خود کو فی الحال نوبل انعام کا حقدار نہیں سمجھتی‘ ابھی میں نے بہت کچھ کرنا ہے۔ میں نے بچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے لیکن ابھی ایسا کچھ نہیں کیا کہ خود کو نوبل پرائز کا حقدار ٹھہراﺅں۔“ یہی بات پاکستان میں موجود ایک حلقہ بھی کہہ رہا ہے۔ نوبل انعام کے اعلان سے ایک روز قبل ملالہ یوسف زئی کو یورپی یونین کا سخاروف ایوارڈ دیا گیا۔ اس انعام کے لئے ایڈورڈ سنوڈن بھی نامزد ہوئے۔ سنوڈن نے امریکی حکومت کا اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کا پردہ فاش کیا تھا جس پر اسے امریکہ سے بھاگنا پڑا۔ آج کل وہ روس کی پناہ میں ہے۔ سخاروف انعام سابق سوویت یونین کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور منحرف رہنما آندرے سخاروف کی یاد میں ”سوچ کی آزادی“ کے لئے ہر سال دیا جاتا ہے۔ کوئی ملک شیخ مجیب یا شکیل آفریدی کے نام سے امن ایوارڈ کا اعلان کرے تو ہمیں کیسا لگے گا؟ ایسا ہی روس کو بھی سخاروف پرائز پر لگتا ہوگا۔ نوبل پرائز کے لئے اگر سیاسی وجوہات اور کچھ قوتوں کی خواہشات کا عمل دخل ہے تو اس مرتبہ فیصلہ یقینا میرٹ سے ہٹ کر پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا گیا۔
نوبل امن انعام، عالمی امن میں بہترین کردار ادا کرنیوالی شخصیت یا ادارے کو دیا جاتا ہے۔ 259 نامزدگیوں میں انعام حاصل کرنیوالے مذکورہ ادارے کے ساتھ پیوٹن، بل کلنٹن اور بانکی مون جیسی شخصیات کا نام شامل تھا۔ امریکی صدر اوباما کو بھی یہ انعام مل چکا ہے۔ اس کا امریکی صدارت سنبھالنے کے بعد ایک سال تو کیا ایک مہینہ، ہفتہ اور دن بھی خون آشامی سے خالی نہیں۔ چند ہفتے قبل اوباما کی سربراہی میںامریکہ شام پر دمشق میں باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگا کرحملے کی پوری تیاری کر چکا تھا۔ اس کے اتحادی شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے امریکہ سے بھی زیادہ بے تاب نظر آرہے تھے۔ امریکی فوج نے شام کا گھیراﺅ کرلیا تھا۔ میزائل اور راکٹ نشانہ لے چکے تھے ۔صرف اوباما کی طرف سے بِگل بجانے کا انتظار تھا۔ اوباما نے کہا کہ انہیں اقوام متحدہ اور اپنی کانگریس کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں روسی صدر پیوٹن سامنے آئے، جارحیت پر تیار امریکہ کو حملہ سے للکارنے کے انداز میں باز رہنے کو کہا۔ ان کی آواز میں آواز دیگر متعدد ممالک نے بھی ملائی۔ اس پر امریکہ نے بادل نخواستہ شام پر چڑھائی کا فیصلہ واپس لے لیا۔ روس درمیان میں نہ آتا تو امریکہ اور اتحادیوں کی بمباری سے کتنے شامی ہلاک ہوتے، اس کا عراق اور افغانستان کی تباہی کو مدنظر رکھ کر آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانیت کو ایک اور تباہی سے بچانے میں روس نے بہترین کردار ادا کیا۔ اس سال نوبل پرائز کا حقدار روسی صدر پیوٹن کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا اور سب سے کم مستحق ملالہ یوسف زئی تھی۔ ملالہ کی عالمی امن کے لئے کوئی کوشش نظر نہیں آئی، تعلیم کے فروغ کے لئے بھی فی الوقت اس کی جدوجہد اس پائے کی نہیں کہ اسے کوئی عالمی ایوارڈ دے دیا جائے۔ البتہ اس نے خطرات مول لے کر اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا۔ اس کی پاداش میں اس پر مبینہ طور پر حملہ ہوا۔ اس جرا¿ت پر اسے جو بھی پذیرائی ملے‘ وہ بجا ہے۔
No comments:
Post a Comment