روحانیت کی منزلیں مرشد کے بغیر طے نہیں ہو سکتیں۔ روحانیت حالِ دل کے ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتے ہوتے خالق و مالک کائنات کے محبوب تک پہنچ جانے کا نام ہے۔ جب کوئی بھی شخص اس منزل پر پہنچ جائے تو مرشدِ کامل اور اقبال کا مردِ مومن ہے
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
روحانیت کی طرف رجحان رکھنے والے لوگ مرشد کامل کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اپنے مسائل مصائب اور مشکلات سے نجات کے لئے مرشد یا پیر کی جستجو ہوتی ہے۔ شاید کچھ کے لئے یہ شارٹ کٹ بھی ہو۔ کچھ دنیا دار روحانیت کے لبادے میں انسانیت کو فریب دیتے ہیں۔ ہم روحانیت اور مرشد ِکامل کی بحث میں نہیں پڑتے۔ ہم مرشد اور پیر کا جو مجموعی تصور ہے اس کو مدنظر رکھ کر بات کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے۔آپ کو جو بھی راہِ راست دکھا دے، کامیاب زندگی کا گُر بتا دے وہی رہنما ہے اور پیر و مرشد بھی۔ جنرل ضیاءالحق اپنے بے تکلف دوستوں کو مرشد کہا کرتے تھے۔ جنرل فیض علی چشتی کے ” جبر آزما“ قسم کے مشوروں پر ضیاءکہا کرتے تھے ”مرشد ! مروا نہ دینا“
گزشتہ دنوں پیر کے عنوان سے کالم لکھا۔ اس پر بے شمار فون اور ای میلز آئیں۔ لوگ ان دو حضرات کا پتہ اور رابطہ نمبر پوچھتے ہیں جن کا کالم میں ذکر تھا۔ عمران خان کے مرشد یا پیر کا ذکر شامی صاحب سے بالواسطہ سنا تھا اور بالواسطہ ہی پتہ چلا ہے کہ نام سے اُس وقت تک وہ بھی واقف نہیں تھے۔ دوسرا واقعہ جس نے سنایا تھا وہ صاحب رابطے میں نہیں۔
پریشان حال لوگوں کو جہاں امید کی کرن نظر آتی ہے وہ اسی طرف اپنا قبلہ کر لیتے ہیں۔ منزلِ مراد کو ،کوئی کوئی پہنچتا ہے ،اکثر سراب اور فریب نظر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کالم کے بعد کچھ اہل علم لوگوں نے بتایا گوجر خان میں پروفیسر احمد رفیق اختر اور لاہور میں سرفراز شاہ صاحب پریشان حال لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ دونوں حضرات معروف ہیں۔ ان تک رسائی میں دقت نہیں ہوتی۔
چند سال قبل ایک دوست نے بتایا کہ گھر کی تعمیر اور بیٹی کی شادی کے لئے سود پر قرض نہ لینے کا انسان عہد کرے تو اللہ کی جناب سے یقینی مدد ہو تی ہے۔ میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور دونوں حوالوں سے سرخرو ہوا۔ میرے لئے تو میرا یہی دوست رہنما اور پیر و مرشد ٹھہرا۔ میں اس سے آگے کی بات کرتا ہوں کہ زندگی کے کسی بھی معاملے اور کاروبار میں آپ سود سے باز رہیں تو خدا مدد ضرور کرتا ہے۔ ویسے مجھے جب بھی مشکلیںپڑیں داتا دربار گیا تو آساں ہو گئیں۔ تمام اللہ والے اس پر متفق ہیں کہ جسے مرشد ِکامل کی تلاش ہو وہ کشف المحجوب پڑھ لے تو اسے مرشدِ کامل مل جاتا ہے ۔
آج ہماری حکومت بھی مشکل کا شکار ہے۔ معیشت کی زبوں حالی اور دہشت گردی جان کو آئی ہوئی ہے۔ معیشت کی ڈوبتی ناﺅ کو سہارا دینے کے لئے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشیائی و اسلامی ترقیاتی بنک کو رہنما سمجھ کر قرض لے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک مسلک کے علماءکو مرشد مان کر ان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔
حکومت نے اے پی سی کے بعد طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی تو اس سے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلیں۔ان کو پاکستان میں امن کی فصل لہلہاتی ہوئی نظر آنے لگی لیکن یہ سب سراب ثابت ہوا۔بارود کے مر غولے پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ بے گناہوں کے جسم کے چیتھڑے اور خون بکھیرنے لگے۔ پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔قبل ازیں جنر ل ثنا ءاور ساتھیوں کو دھماکے میں شہید کیا جاچکا تھا۔ ان واقعات سے مذاکرات کا انعقاد سوالیہ نشان بن کر رہ گیالیکن حکمران اور طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے سیاسی گروپوں اور متعدد مذہبی تنظیموں نے مذاکرات ہی کو آخری آپشن قرار دیا ۔یہ طبقات ،گروپ یا گروہ طالبان سے بھی زیادہ طالبان کے وفادار نظر آئے ۔حکومت نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے خود کو ممتاز جید علماءکرام و مفتیان عظام کہلانے والوں سے اللہ اور رسول کے نام پر حکومت اور طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کرائی ۔نامور اور بڑے مدارس سے تعلق رکھنے والے اکابرین کا اہم اور غیر معمولی نوعیت کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا تھا۔ا ن میں سے بہت سے جولائی 2007میں جامعہ حفصہ اپریشن سے قبل صلح کے لئے اسلام آباد گئے اور ہوٹلوں میں سوئے رہے۔سرکاری خرچ پر اکٹھے ہونے والے علماءکرام کو کوششوں کا طالبان نے اسی طرح خیر مقدم کیا جس طرح اے پی سی کا کیا تھا ۔اس پر چند علماءنے حکومت اور طالبان کے درمیان رابطہ کار کا تاثر دیاجو ہنگو میں مذاکرات کے حامی ایک طالبان گروپ کے کمانڈر ملا نبی حنفی کے مدرسے پر حملے سے زائل ہو گیا۔ اس حملے میں ملا حنفی زخمی اور ان کے 17 کمانڈر اور ساتھی مارے گئے۔حکومت کے ایما پر رابطہ کرنے والے علماءاور طالبان ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔کچھ علماءکا دعویٰ ہے کہ طالبان ان کو باپ کا درجہ دیتے ہیں۔یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ساٹھ ستر میں سے طالبان کے کتنے گروپوں کے دل میں ان کا احترام ہے؟ طالبان اور حکومت کتنے ہی سال سے ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔دونوں کو جنگی بندی پر مائل کرنے کے لئے کیا سرکاری دعوت کا اہتمام ضروری تھا؟
کرنل امام اور خالد خواجہ کو بھی طالبان اپنا استاد اور مرشد کہتے تھے۔ ان کو اپنے ہاںبلایا اور دونوں سابق فوجی افسروں ویڈو کیمروں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا۔جن کے سامنے ریاست آئین،استاد اور مرشد کی کوئی حیثیت نہیں وہ بزعمِ خویش استاد اور باپ ہونے کے دعویداروں کو کیا خاطر میں لائیں گے؟
٭٭٭٭
مذاکرات سے قبل ڈرون حملے بند کرانے کا طالبان کا مطالبہ بجا ہے لیکن اس مطالبے پر عمل حکومت کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔امریکہ تو ان کے ایک جگہ جمع ہونے کا منتظر ہے تاکہ ایک ہی وار میں زیادہ سے زیادہ کو پار کردے۔طالبان کی دیگر شرائط بھی کڑی ہیںاور ان کے گروپوں کی تعداد بھی کم نہیں ان میں سے کئی کو بقول جنرل حمید گل پاکستان دشمنوں کی مدد حاصل ہے۔ جن طالبان کے اپنی دانست میں مقاصد مذہبی ہیں وہ بھی ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں۔ان عوامل کے پیش نظر طالبان سے مذاکرات کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے البتہ حکومت اگر چند گروپوں کو مذاکرات کی میزپر لے آئے تو الگ بات ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوسکتاہے کہ طالبان متحارب گروہ آپس میں لڑ لڑکر مر جائیںاور جو باقی بچیں وہ اتنے نحیف ہونگے کہ فوج ان کو آسانی سے دبوچ لے گی۔ حکومت کے مذاکرات کے عزم کے پس پردہ شاید یہی سوچ ہولیکن یہ ضروری نہیں کہ جو آپ نے سوچ لیا وہی حرف ِ آخر ہو۔پاکستان دشمن قوتوں کے پروردہ گروپ اپنے آقاﺅں کا کھایا نمک کیا حلال نہیں کریں گے؟
No comments:
Post a Comment