ے راہ
کراچی میں بینظیر بھٹو کے استقبالی قافلے پر حملے کو چھ سال ہو گئے۔ اس موقع کی مناسبت سے کراچی میںمنعقد کی گئی تقریب میں بلاول زرداری کے خطاب کے دوران جوش، جذبہ ،جنون ‘دیوانگی اور ہوش و حواس سے بے گانگی سب کچھ دیدنی تھا۔بلاول نے بیک وقت نواز لیگ ،تحریک انصاف اور متحدہ کو للکارتے ہوئے کہا ”خون پینے والے شیر کا شکار کریں گے۔کراچی آج بھی لندن کی کالونی ہے ، فون پر چلنے والی پتنگ کاٹ دینگے۔ خیبر پختون خواہ کو سونامی سے بچائیں گے۔ بزدل خان دہشت گردوں کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں۔ 2018 ءکے انتخابات میں آصف زرداری جیالوں کی کمان ہوں گے اور میں تیر، ہم اکٹھے ہوکر شیر کا شکار کریں گے۔“ بڑی پارٹیوں اور انکی قیادت کے بارے میں واضح طور پر یا بین السطور جو کہا گیا ، ان پارٹیوں کی طرف سے برا منانا ایک فطری امراور ردعمل کا اظہار ترجمانوں کی مجبوری ہے۔یہ فریضہ ہر ترجمان نے ادا کرتے ہوئے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے میں کوئی گنجائش نہ چھوڑی۔وزیر اطلاعات جناب پرویز رشیدنے قیادت اور کارکنوں کا حوصلہ یہ کہہ کر بڑھایا” 2018ءآئے گا تو دیکھ لیں گے،عوام مسلم لیگ ن ہی کو منتخب کریں گے “پانچ سال تک پیپلز پارٹی کے کئی پرویز رشید اور خصوصی طور پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے حادثاتی جانشین راجہ پرویز اشرف اپنے اپنے دور ِ اقتدار میں تواتر کے ساتھ یہ کہتے رہے۔ ”2013ءکے انتخابات آئے تو دیکھ لیں ، ان میں پیپلز پارٹی ہی جیتے گی۔“کامیابی اگر جوش خطابت‘ بیانات اور خوش فہمیوں کی مر ہونِ منت ہوتی تو ہر پارٹی تین سو امیدوار کھڑے کرکے سوا تین سو پر کامیابی حاصل کرتی۔ انتخابات میں بے شک شیطانوں(جن کوعرفِ عام میں فرشتے کہا جاتا ہے ) کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتااس کے باوجود بھی بڑا عمل دخل ووٹر کا ہی ہے۔ بلاول نے جوشیلے انداز میں ابا جی کو کمان اور خود کو تیر سے تشبیہ دی تو زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کی عدالتوں میں پیشی اور رہائی کے موقعوں کی میڈیا میں نشر اور شائع ہونے والی تصویریں گھوم گئیں۔جن میں دونوں حضرات موقع بہ موقع نیم کمان کی شکل بنے نظر آتے تھے۔ گمان گزرتا تھا کہ ان کو چُک پڑ گئی ہے جس کے بارے میں میاں محمد نے فرمایا تھا۔ ....
کوئی آکھے، پیڑ لکّے دی کوئی آکھے، چ±ک
ّ وچلی گل اے، محمد بخشا اندروں گئی اے مُک
لیکن جب جیلوں سے نکلے اور جلاوطنیوں سے لوٹے تو نو بر نواورمخالفوں کے ”پھٹے چکتے“ دکھائی دئیے۔زرداری صاحب پر تین چار سال کے لئے پھر برا وقت آیا تو وہ واقعتا کمان بن چکے ہونگے ایسی کمان جس سے تیر داغنا ممکن نہیں ہوگا ۔بلاول کی صورت میں تیر بغیر کمان کے چلے گا تو کیا اثر کرے گا۔ ویسے آصف علی زرداری نے ایسے لوگوں کو شیشے میں اتار لیا ہے جو ان پر ممکنہ طور پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ایک طرف بلاول شیر کو للکار رہے ہیں دوسری طرف ان کے والدشیر کو پکار رہے ہیں۔”قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“ قوم کی خواہش اور اسی میں ملکی مفاد ہے کہ نواز شریف ، زرداری کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں مقرر ہونے والے چیئر مین نیب قمر زمان کو احتساب کے لئے فری ہینڈ دے دیںلیکن یہ ممکن اس لئے نظر نہیں آتا کہ پھر خود کو بھی احتساب کیلئے پیش کرنا ہوگا۔یہ بڑی خوش کن خبر ہے کہ بلاامتیاز مقدمات کھولے جا رہے ہیں۔ ماہرین کواس کے پسِ پردہ مقدمات کھول کر ہمیشہ کے لئے بند کرنے کی حکمتِ عملی نظر آرہی ہے۔ہم یہ تو کہتے ہیں مدینہ سے سیکڑوں میل دور” فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار عمرؓ ہے“اگر بھوک سے انسان مرنے ،اجتماعی خود کشیاں کر نے لگیں۔کوئی پیٹ کو آگ بجھانے کے لئے چوری پر اُتر آئے تو اس کا ذمہ دار نواز شریف،زرداری اور شہباز شریف خود کو نہ سمجھیں ،ہم عوام بھی منافقانہ مصلحت سے کام لیتے ہوئے سچ کہنے سے گریز کریں تو وہی کچھ ہوگا جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے ۔ جب رہنما ہی بے راہ ہو جائیں‘ ڈوبتی کشتی کو بچانے کے بجائے ناخدا ہی کشتی ڈبونے پر اتر جائے تو قوم اور کشتی کا خدا ہی حافظ!
بلاول زرداری نے ایک سانس میںکہا” پیپلز پارٹی بزدل خان کی جماعت نہیں“ دوسری سانس میں گویا ہوئے ۔”گزشتہ انتخابات میںکارکنوں کی زندگی بچانے کیلئے 100نشستیں قربان کر دیں“ انتخابات میں کئی پارٹیوں کی قیادتیں صد حصاری ایوانوں کے اندر قلعہ بند ہو کے بیٹھ گئیں کئی روٹھ کر بیرونِ ممالک چلے گئے۔انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن، جماعتِ اسلامی ،جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے کئی لوگ دہشتگردی میں مارے گئے۔ جیالے اندازہ کرلیں کہ بزدل خان کون ٹھہرا۔
تحریک انصاف اور اس کی خیبر پی کے میں حکومت اب بھی اس کے باوجود دہشتگردوں کے نشانے پر ہے کہ وہ انکے ساتھ مذاکرات اور ان کو مذاکرات کے لئے دفتر فراہم کرنے کی حامی ہے۔پی ٹی آئی کے تین ایم پی اے اور اسراراللہ گنڈا پور سمیت دو وزیر خود کش حملوں میں مارے گئے۔ گنڈا پور کو عید کے روز خود کش دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ عمران کی سیاست میں پزیرائی پر سب سے جو لوگ دکھی اور جن کے طالبان کے بے شمارگروپوں میں سے چند ایک کے ساتھ گہرے روابط ہیں ان حملوں کے پیچھے ان کے سوا کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ اسکی پی ٹی آئی کی قیادت کو سمجھ نہیں آئی یا پھر وہ مصلحتاً ان کا نام لینے سے گریزاں ہے ۔جمہوریت میں سب کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے‘ بلاول کو بھی۔ انکے ٹیوٹر انہیں کچھ ادب بھی سکھا دیں تو بہتر ہے۔ 18 اکتوبر 2007ءکے حملے میں 177 جیالے جاں بحق اور 600 زخمی ہوئے۔ پی پی پی پانچ سال اقتدار میں رہی ‘ سندھ میں اب بھی ہے‘ لیکن کوئی حملہ آور گرفتار نہیں ہوا۔ اس کا جواب کون دیگا؟ زرداری صاحب‘ یا بلاول بھٹو زرداری۔
No comments:
Post a Comment