About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, November 6, 2013

محسود ،ڈرون اورمذاکرات ڈرامہ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان


حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں مارے جانے کی غیر مصدقہ خبر ہر ٹی وی چینل پر اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے تبصروں کے ساتھ چل رہی تھی تو کئی کی حافظوں پر کرنل امام کے قتل کی ویڈیونے بھی دستک دی ہوگی۔جنوری 2011ءکو کرنل امام کو طالبان کی حراست کے دوران فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔کلاشنکوف بردار کے سامنے کھڑا کرنے سے قبل کرنل اما م پہاڑی علاقے میں بیٹھے دکھائے گئے انکے سر پر حکیم اللہ محسود کھڑے تھے۔انہوں چند آیات کی تلاوت کی اوربڑے جذباتی انداز میں انکے جرائم بتائے تھے۔پھر ایگ گولی کے بعد کرنل امام کو گرتے ہوئے اور پھر چندفائر کرنے کے بعد اور ان کا سر ایک طرف ڈھلکتے دکھایا گیا ۔یہ سب کچھ حکیم اللہ محسود کی موجودگی میں ہوا۔
ڈرون حملے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے ہی میں بیت اللہ محسود کے مارے جانے کی تصدیق ہو گئی۔اس حملے میں کمانڈر طارق محسود اور عبداللہ بہار سمیت 6 افراد لقمہ اجل بنے۔ محسود شمالی وزیرستان کے گاﺅں ڈانڈے درپہ خیل جو تحریک طالبان کا گڑھ ہے‘ میں طالبان شوریٰ کے اجلاس کی سربراہی کر رہے تھے جس میںحکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق حتمی فیصلہ ہونا تھا۔
قومی و بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حکیم اللہ محسود 1979ءمیں جنوبی وزیرستان کے علاقے تکئی میں پیداہوئے ، ان کا اصل نام جمشید محسود ہے‘ وہ کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر بیت اللہ محسود کے ڈپٹی بھی رہے۔ وہ پہلی مرتبہ 2007 ءمیں پاکستان فوج کیخلاف حملوں کی وجہ سے ایک بے رحم شدت پسند کے طور پر ابھرے۔ 23 اگست2009 ءمیں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے ۔وہ تحریک طالبان کی قیادت سنبھالنے سے قبل کرم ایجنسی اور خیبر ایجنسی میں طالبان جنگجوو¿ں کے قائد تھے ۔ یہ حکیم اللہ محسود ہی تھے جنہوں نے دو ہزار سات میں دو سو پچاس پاکستانی فوجیوں کو یرغمال بنایا۔ انکی قیادت کے دوران جی ایچ کیو ، پریڈ لائن مسجد، مہران نیول بیس،کامرہ ایئر بیس،آئی ایس آئی اورایف آئی اے کے دفاتر سمیت انگنت مقامات اور تنصیبات پر خود کش حملے ہوئے ‘جن میں عام شہریوں ،افواج کے افسروں ،جوانوں اور بچوں کی اموات کیساتھ ساتھ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو بھی تقویت ملی۔ان چند اہم واقعات سمیت دیگر بہت سے واقعات کی ذمہ داری حکیم اللہ محسود کی تنظیم کی طرف سے قبول کی گئی۔ حالیہ دنوں میںجب حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے معاملات طے ہورہے تھے تو جنرل ثناءاللہ نیازی کو بارودی سرنگ کے دھماکے میں اُ ڑا دیا گیا جس کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی۔ اس پر حکومتی حامیوں نے تنقید کی تو طالبان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کسی معاہدے پر پہنچنے تک اپنی کارروائیوں میں آزاد ہیں۔ طالبان کے اس مو¿ قف کی انکے حامیوں نے بھی تائید کی۔اگر طالبان ایسا کرنے میں آزاد ہیں تو جس فریق کے ساتھ وہ برسرِ پیکار ہیں وہی بھی یہی مو¿قف دہرا رہا ہے ۔حکیم اللہ محسود بھی ایسی ہی کارروائی کی زد میں آگئے۔
حکیم اللہ محسود امریکہ کو تحریکِ طالبان پاکستان کے القاعدہ اور افغان طالبان کے ساتھ رابطوں کے باعث مطلوب تھا۔حکیم اللہ محسود کے بعد سب سے طاقتور کمانڈر لطیف محسود کو چند ہفتے قبل امریکی سپیشل فورسز نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کی حراست اس وقت چھین لیا جب وہ اسے کابل میں خفیہ ملاقات کیلئے لے جا رہے تھے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پاکستانی طالبان رہنما لطیف محسود کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان حکومت لطیف محسود کے ذریعے پاکستانی طالبان کو پاک فوج کیخلاف کارروائیوں کیلئے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ این ڈی ایس کو بھارتی ایجنسی RAW نے ٹرینڈ کیا اوروہ اسی کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے اور کس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔محسود بیک وقت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب تھے ۔ امریکہ نے انکے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر پاکستان نے پانچ کروڑ روپے لگا رکھی تھی۔
یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ ڈرون حملے اب بھی پاکستان کی مرضی سے ہی ہو رہے ہیں۔اس حوالے سے اہم ترین بیان امریکی کانگرس میں ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن ایلن گریسن کا ہے جس کی پاکستانی حکام نے تردید نہیں کی۔ انہوںنے کہا کہ ”اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل بند ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی ایئر فورس اپنی فضائی حدود پر پابندی لگا کر ڈرونز کو روک سکتی ہے۔ پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرح کے حملے نہیں ہو سکتے۔“ سینٹ میں ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کے جو اعداد و شمار پیش کئے وہ بھی دنیا پر ڈرون حملوں کا جواز ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔وزارت دفاع کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ 2008ءسے لیکر 2013ءتک 5 سال کے عرصے میں 317 ڈرون حملے کئے گئے جن کے نتیجے میں 67 عام شہری اور 2160 شدت پسند جاںبحق ہوئے ۔ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود اور ساتھیوں کے مارے جانے کاحکومت کو تو بجا طورپر کریڈٹ لینا چاہیئے جس نے وہ مقصد حاصل کر لیا جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بھی شاید حاصل نہ ہو سکتا۔ مذاکرات کیلئے حکومت کی ظاہر ی کو ششیں بھی شاید ڈرامہ ہوں جس میں حکومت کامیاب رہی۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے طالبان کو شدید نقصان پہنچا۔ انکے اتحاد میں بھی شاید دراڑیں پڑ جائیں۔ اس کا ریاست کو اسی صورت فائدہ ہو سکتا ہے کہ حکمران ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ قوم کو حکمران اتحاد، اتفاق، یکجائی اور یکجہتی کا درس دیسے ہیں جبکہ خود دو کشتیوں میںسوار ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف شدت پسندوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔ حکمران شائد اپنی جانیں بچانے کیلئے حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔



No comments:

Post a Comment