منگل ,28 اگست ,2012
صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کا بانی ¿ پاکستان کا تعلق ایک خاص مسلک سے جوڑنے کے حوالے سے بیان متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ روز ایک بار پھر راولپنڈی سے میجر نذیر فاروق کا فون آیا، وہ قائداعظمؒ کی ذات کو اس طرح سے زیر بحث لانے پر بڑے جز بز، خفا، برہم بلکہ مشتعل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں لوگ اپنے ہیروز کو اس طرح ڈسکس کر کے متنازعہ نہیں بناتے جیسے ہمارے ہاں وتیرہ بنا لیا گیا ہے۔ میجر صاحب الطاف بھائی کے کردار، شخصیت، سیاست اور برطانیہ میں ان کی ذات پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے سوالات در سوالات کر رہے تھے جن کا جواب الطاف بھائی خود یا ان کے ساتھی اور میڈیا منیجرز دے سکتے ہیں --- قائداعظمؒ کا مسلک کیا تھا؟ اس حوالے سے بہت لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ ہم صرف ایک واقعہ دہرا دیتے ہیں کہ قائداعظمؒ سے کسی نے یہی سوال کیا تھا اس پر قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ان کا وہی مسلک ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ چند روز قبل ایک باوقار خاتون دکاندار سے جھگڑ رہی تھیں۔ بظاہر ان کا لب و لہجہ اور تندخوئی ان کے وقار کے شایانِ شان نہیں تھا۔ معاملے کی نوعیت جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ خاتون نے خریداری کے لئے ادائیگی کی تو دکاندار نے بقایا میں جو نوٹ دئیے وہ بوسیدہ تھے خاتون نے نئے نوٹ مانگے تھے۔ دکاندار نے پوچھا کہ کیوں؟ خاتون نے کہا کہ وہ جناح کا اُجلا چہرہ دیکھنا چاہتی ہےں۔ دیوس دکاندارنے کہہ دیا جناح تو کافر تھا۔ اس پر قائدؒ کا ایسا احترام کرنے والی شخصیت جو نوٹوں پر بھی ان کا اُجلا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے بھلا خاموش رہ سکتی تھی۔ خاتون غصہ میں تھی تاہم جلد نارمل ہوئی تو دلیل کے ساتھ دکاندار کو سمجھایا۔ وہ خاتون کے قائداعظمؒ کے ساتھ محبت و احترام سے متاثر اور دلائل سے قائل ہوا تو اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے معافی مانگ لی۔ یہ خاتون ہماری محلے دار ہیں۔ بنیادی تعلق لبنان سے ہے۔ ایک پاکستانی سے شادی کی اور ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شوہر کا چودہ پندرہ سال قبل انتقال ہو گیا اب اپنے بیٹوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ چند روز قبل ہمارے گھر تشریف لائیں اور فرمایا ”بیٹا آپ صحافی ہیں اس لئے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں“ میں نے ان کو خوش آمدید کہا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنی فیملی کے درمیان بٹھا لیا۔
اماں جی کسی بھی پاکستانی سے بڑھ کر محبِ پاکستان اور عالمہ و فاضلہ ہیں۔ پاکستان کے مخدوش حالات پر دلبرداشتہ ہونے کے باوجو اسے اسلام کا قلعہ اور اُمہ کی امیدوں کا مرکز قرار دیتی ہیں۔ عربی ان کی مادری زبان، انگریزی انگریزوں کی طرح بولتی ہیں، اردو بولنے کا لب و لہجہ محترمہ بینظیر بھٹو سے مشابہہ ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتی ہیں۔ وہ کچھ عرصہ تک ایک بڑی سیاسی و دینی شخصیت اور سکالر کے گرلز کالج کی پرنسپل رہی ہیں۔ ان کے والد کی کچھ جائیداد فلسطین میں تھی جو آج یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے اپنے بچپن کا روح پرور واقعہ سُنایا جو حیران کن ہے۔ ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے ”میری عمر آٹھ نو سال تھی، رات کو خواب میں دیکھتی ہوں کہ بیروت کے بازاروں اور گلیوں میں گُھپ اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے میں میرے سامنے ایسی روشنی پھیل رہی تھی جس سے میرے لئے چلنا آسان ہو رہا تھا، میں بازار میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ذہن میں آیا کہ روشنی کی صورت میں میری رہنمائی حضرت خضرؑ کر رہے ہیں۔ چلتے چلتے سامنے گرجا گھر نظر آیا تو میں دائیں مُڑ جاتی ہوں۔ یہاں مجھے اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی مدہم سی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بلند ہوتی چلی گئیں تاآنکہ مجھے نظر آیا کہ سبز پگڑیاں پہنے لوگوں کا ایک پُرنور ہجوم رواں ہے، ان کے ایک ہاتھ میں سن ریز (دف قسم کا آلہ) ہے دوسرے سے وہ اس پر چوٹ لگاتے ہیں اور بڑی خوبصورت آواز میں یہی کہے جا رہے ہیں اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، ان کی قیادت ایک خوبصورت شخص کر رہا ہے۔ قافلہ میرے سامنے سے گزر رہا ہے۔ میرِ کارواں نے گردن گھما کر میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ ان جیسا خوبرو، خوبصورت اور حسین شخص میں نے آج تک بھی نہیں دیکھا۔ ان کے گھنگریالے سیاہ بال اور ایسی ہی ریش، کشادہ نورانی پیشانی، چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید، دانت موتیوں کی طرح چٹے سفید اور آنکھیں بادامی رنگ کی۔“
اماں جی نے بات کرتے کرتے رُک کر پوچھا، پتہ ہے وہ حسین و جمیل شخص کون تھا؟ پھر خود ہی گویا ہوئیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اللہ اکبر کے نعرے لگانے والے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءکرامؑ تھے۔ چہرے کے باقی نقش جو اماں جی نے بتائے وہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی معروف پنجابی نعت ”اج سک متراں دی ودھیری“ میں بیان کئے گئے ہیں
مُکھ چند بدر شعشانی اے، متھے چمکدی لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے، مخمور اکھیں ہِن مدھ بھریاں
جناب محمد خان قادری صاحب نے ”سک متراں دی“ شرح لکھی ہے۔ میں نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہے۔ اتفاق سے اماں جی کی آمد سے قبل میں نے اسے سرسری طور پر دیکھا اور اپنی لائبریری میں رکھ دی تھی۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا انہوں نے پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی ”اج سک متراں دی ودھیری“ نعت پڑھی ہے۔ اماں جی نے کہا کہ وہ اردو لکھ پڑھ اور بول سکتی ہیں پنجابی نہیں آتی۔ انہوں نے شاید پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کا نام بھی پہلے نہیں سُنا تھا۔ میرے لئے پیر مہر شاہ صاحبؒ کی نعت میں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ¿ اقدس اور اماں جی کے بیان کردہ رُخِ انور کے نقوش میں مماثلت حیران کن ہے۔ اماں جی نے کہا کہ ان کے دل میں ہمیشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت اور تڑپ رہی ہے۔ خواب میں مَیں نے صاحبِ لولاک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا وہ اتنے حسین تھے کہ I fell in to his Love ۔ اماں جی ہم مسلمانوں کے اس رویے پر بھی ملول ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰة و سلام کا نام آنے پر بڑی تیزی سے صلعم یا صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیا جاتا ہے۔ اماں جی کہتی ہیں کہ جس ٹھہرا¶ اور لہجے میں گفتگو ہو رہی ہو اسی روانی میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment