منگل ,14 اگست ,2012
یومِ آزادی اور اسلامی سربراہی کانفرنس
آج کے دن کی عالمِ اسلام کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے ۔آ ج ایک طرف پاکستان کا جشنِ آزادی منایا جارہاہے اور دوسری طرف مکہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہورہی ہے ۔مدینہ کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی ریاست ہے۔اس حوالے سے اسلامی برادری میں پاکستان خصوصی اہمیت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔دیگراسلامی ممالک پاکستان کو بڑا سمجھتے اور اسے اسلام کا قلعہ قرار دیتے تھے۔1971ءپاکستان ٹوٹا تو اس کوبڑا ور اسلام کو قلعہ قرار دینے والوں کی امیدیں ٹوٹیں ،دل ٹوٹے اور ان کے پاکستان کی طرف سے امہ کی قیادت کرنے کے حوالے سے سہانے سپنے بھی ٹوٹ گئے۔انڈونیشیا ،پاکستان اور نائیجیریا آبادی کے حوالے سے اسلامی ممالک میں بالترتیب ”اب تک“ پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پاکستان سے بڑے اسلامی ملک کا اعزاز چھنا تو اسے ایک اور اعزاز ” عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت “حاصل ہوگیا۔پاکستان ایک بار بڑا ، اسلام کا قلعہ ، مسلم امہ کا تفاخر اورامیدوں کا مرکز قرارپایا۔اسلامی ممالک پاکستان سے عالمِ اسلام کو لیڈ کرنے کی توقعات رکھتے ہیں۔پاکستان بلا شبہ اپنے ایٹمی قوت ، دنیا کی بہترین فوج کا حامل ،بے پنا ہ قدرتی وسائل سے مالا مال اور بہترین ہنر مند افرادی قوت سے سرفراز ہونے کے باعث عالمِ اسلام کی قیادت کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان کے 27ویں کی شب کووجود میں آنا اتفاق نہیں بلکہ پروردگار کی ایک عنایت ،نوازش، فضلِ کرم اور معجزہ ہے۔کچھ لوگ اس حوالے سے شک و شبہات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔اہلِ پاکستان کے یقین کو یقینِ راسخ بنانے کے لئے عرض ہے کہ پاکستان یقینا 27 ویں کی شب ہی کو قائم ہوا تھا۔ نوائے وقت کے اگست 1947 ءکے شمارے اس کے گواہ ہیں جو میں اور میرے ساتھیوں نے دیکھے ہیں۔ نوائے وقت کی پیشانی دیکھنے اور پڑھنے پر واضح ہوگیا کہ جس رات کو قیام پاکستان کی خوشخبری سنائی گئی وہ ستائیسویں کی شب اور جمعہ کی رات تھی۔ 14اگست 1947 کو 26 رمضان المبارک سن ،1366 ہجری تھا۔انٹر نیٹ پر کنورٹر سے بھی یہ تاریخ اور دن کنفرم ہوجاتے ہیں۔ میجر حیدر حسن صاحب کی تحقیق کے مطابق نبی کریم ﷺپر پہلی وحی کا نزول 14 اگست کو ہوا تھا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایجنڈے میں برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر غور سرِ فہرست ہے ۔شام اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال بھی زیر غور آئے گی۔ افسوس، مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں شامل نہیں۔او آئی سی کی امہ کو درپیش مسائل کے حل کے بارے میں کوششیں دنیا کے سامنے ہیں ان کو مثالی اور قابل رشک تو کیا اطمینان بخش بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔21 اگست 1969ءکو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ءکو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔اس کے سبز ہلالی پرچم کے درمیان اللہ اکبر درج ہے۔ ذات کبریا کی کبریائی کے لئے او آئی سی کی طرف سے جس عزم اور جن کاوشوںکی امہ کو توقع تھی وہ خاک ہوئیں اور 57اسلامی ممالک کہ یہ تنظیم اب تک راکھ کا ایک ڈھیر ثابت ہوئی ہے۔فلسطین اور کشمیر کے چنگاری سے شعلہ اور الاﺅ بنتے ہوئے مسائل او آئی سی کے اپنے وجود میں آنے سے قبل کے ہیں۔ان کا بدستور حل طلب رہنا اس تنظیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔پاکستان اس تنظیم کی موجودگی میں ٹوٹا ،ایران اور عراق کے درمیان کئی سال تک جنگ لڑی گئی ، عراق نے کویت پر یلغار کی اس پر امریکہ عراق پر چڑھ دوڑا ، اسرائیل نے عراق پر حملہ کر کے اس کے نیو کلئیر پلانٹ کو تباہ کردیا۔ افغانستان پر چڑھائی کرکے اسے تاراج کیا گیا،عراق کو ایک بار پھر برباد کیا،لیبیا کی بربادی سامنے ہے ۔ ایران پر حملے کی تیاری ہے،پاکستان غیر اعلانیہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ انڈونیشیا کی کوکھ سے مشرقی تیمور اور سوڈان کے بطن سے جنوبی سوڈان کے نام کی عیسائی ریاستوں کو تخلیق کیا گیا۔ان سارے معاملات میں اوآئی سی کا کردار محض تماشائی کا تھا۔
خاد م ِ حرمین الشریفین کا اسلامی سربراہی کانفرنس طلب کرنا ایک اہم اور بروقت فیصلہ ہے۔سرزمین حجاز مسلمانوں کے لئے عقیدتوں کا مرکز اور ارضِ مقدس پر حکمرانی کرنے والے انتہائی قابل احترام ہیں۔اہل اسلام بجا طور پر خاد م ِ حرمین الشریفین سے مسلم ممالک کے مابین پائے جانے والے اختلافات ختم کرا کے ان کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں۔برما کے صوبے اراکان جہاں آج اہل اسلام کابیدردی سے قتل جاری ہے ، اس میں ساڑھے تین سو سال تک اسلامی حکومت قائم رہی۔ اسلامی مملکت کا پہلا فرمانروا فاروق شاہ تھا اس کے بعد 48حکمران آئے ۔ اس اسلامی ریاست کا1784ءمیں برمی استعماریوں نے جارحانہ قبضہ کر کے خاتمہ کیا۔اراکان کے مسلمان آج آزاد ریاست کو مطالبہ کرتے ہیں نہ حقِ حکمرانی مانگتے ہیں۔وہ صرف باعزت زندگی گزارنے کی خواہش لئے تشدد سے نجات چاہتے ہیں۔او آئی سی دیکھئے ان مظوموں کی کہاں تک داد رسی کرتی ہے؟۔
اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک ممالک نے اگر امہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے فعال کردار ادا نہ کیا تو یہ ممالک ایک ایک کر کے معدوم ہوتے چلے جائیں گے ۔مشرقی تیمور بنا ،پھر شمالی سوڈان وجود میں آیا، اب نائیجیریا کو توڑ کر تیل دولت سے مالا مال جنوبی نائیجیریا کے نام سے ایک اور عیسائی ریاست قائم کرنے کی تدبیر کی جارہی ہے۔ باکو حرام تحریک کی آڑ میں دانستہ شورش پیدا کر کے سامراج اپنے مذموم مقاصد حاصل کرکے کامیابی کے راستے پر گامزن ہے ۔امہ کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ مغرب کی تباہ کن پالیسیوں کی راہ میں مسلم ممالک سنگِ گراں اور عزم، ہمت حوصلے و جرات کا نشاں بن جائیں۔
No comments:
Post a Comment