About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, August 10, 2012

آئندہ انتخابات اور مسلم لیگ ن


جمعہ ,10 اگست ,2012
     


آئندہ انتخابات اور مسلم لیگ ن
انتخابات کی منزل زیادہ سے زیادہ چھ سات ماہ کی دوری پر ہے‘ تاہم قبل ازیں کسی وقت انکے انعقاد کا بگل بج سکتا ہے جس کا سیاست دانوں کو ادراک ہے۔ اسی سبب سیاسی صف بندی شروع ہو چکی ہے۔ ابھی سیاسی پارٹیوں میں اکھاڑ پچھاڑ‘ اتحادوں کے ٹوٹنے اور نئے اتحاد بننے کا موسم نہیں آیا۔ یہ موسم نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گا اور اتحادوں کی فصل الیکشن کے انعقاد تک پکتی رہے گی۔ ہماری کروٹیں لیتی اور چوکڑیاں بھرتی سیاست میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ابال اور بھونچال کی سی کیفیت ہو گی۔ آج کے پارلیمنٹیرین غول در غول پارٹی بدلتے نظر آئینگے۔ اکثر تو اپنی ہمدردیاں اور وفاداریاں بدلنے کیلئے اب بھی بے چین ہیں لیکن 18ویں ترمیم کی اس شق نے پاﺅں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں‘ جس کے مطابق رکن قومی‘ صوبائی اسمبلی یا سینٹ کا پارٹی سربراہ کی خواہش کے برعکس کھانسنا بھی جرم ہے جس کی پاداش میں سینٹری اور جینٹری وغیرہ جاتی رہتی ہے۔ نگران حکومت کے قیام سے قبل بھی کئی اتحادی ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ گو انتخابات ایک آزاد اور غیرجانبدار نگران سیٹ اپ کی موجودگی میں ہونگے تاہم ان نگرانوں کے اوپر آصف علی زرداری صدر کی حیثیت سے بدستور موجود ہونگے۔ انکی مفاہمانہ سیاست کا تو ایک زمانہ قائل ہے۔ وہ اپنے آج کے اتحادیوں کو چالیس سال تک اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ وہ اپنے صدارتی اختیارات اور جادو کی چھڑی سے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر الیکشن میں جانے کی کوشش کرینگے۔ اس میں انکی کامیابی کے کسی کے نزدیک امکانات و توقعات اور کسی کے قریب خدشات موجود ہیں۔ سیاسی یتیم ق لیگ کے سر پر زرداری صاحب نے دست شفقت رکھا تو یہ دام کھرے کرتے ہوئے ان کی غلام بن گئی۔ وہ پی پی پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکی ہے۔ اب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے مرحلے میں قدم رکھ دیا ہے۔ پی پی پی اور ق لیگ مل کر الیکشن لڑتی ہیں تو یقیناً ایک مضبوط اتحاد ہو گا۔ ق لیگ کی بقا پی پی یا ن لیگ کے ساتھ اتحاد میں ہی ہے۔ اگر تنِ تنہا الیکشن لڑتی ہے توع
بیرونِ دریا کچھ نہیں
اے این پی اور ایم کیو ایم بھی بدستور زرداری صاحب کی اتحاد کشتی میں سوار رہتے ہیں تو یہ اتحاد مزید مضبوط ہو گا۔ 
عمران خان سولوفلائٹ کےلئے پرعزم ہیں‘ البتہ جماعت اسلامی جیسی پارٹیاں اگر انکے ساتھ ملنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں تو تحریک انصاف کےلئے یہ قابل قبول ہوں گی۔ عمران خان اور انکے ساتھیوں کو یقین ہے کہ وہ کلین سویپ کرینگے‘ یہی زعم ان کو لندن سے شیروانیاں سلوانے اور حلف برداری کے نظارے دکھا رہا ہے۔ وہ ایک گیند پر دو وکٹیں گرانے کے دعویدار ہیں‘ ان کو تین ساڑھے تین کروڑ نئے ووٹرز پر بھروسہ ہے کہ یہ ان کا ساتھ دینگے‘ ان ووٹرز میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ تحریک انصاف میں دیگر بڑی پارٹیوں سے آنیوالے لوگ اور چند تجزیہ کار ایسی پھوک بھر رہے ہیں کہ اسکی قیادت کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں۔ عمران خاں نے ابھی ابھی عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید سے ہاتھ ملایا ہے 13 اگست کو ان کے جلسے میں اپنی آمد کا شرف بخشنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ میاں صاحب کو شیخ رشید کسی وجہ سے اب قابل قبول نہیں تھا۔
پی پی پی اتحادی اور تحریک انصاف اپنے اپنے طور پر خود کو اگلے الیکشن کے فاتح سمجھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن بھی دعویداری میں ان سے کم نہیں۔ لیکن بادی النظر میں آج کی صورتحال کے پیش نظر اگلے الیکشن میں مسلم لیگ ن خسارے میں نظر آتی ہے۔ کسی بھی پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے اندر انتشار واضح ہے۔ مسلم لیگ ن میں دیگر پارٹیوں سے آنیوالے لوگوں کی آمد پارٹی کے نقطہ نظر سے حوصلہ افزا ہے لیکن جو جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں‘ وہ بڑی بربادی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ن لیگ نے اپنے دروازے ہر کسی پر کھول دیئے لیکن اگر مگر اور تاہم نے اس فیصلے کو بے ثمر کر دیا ہے۔ جاوید ہاشمی کے پارٹی بدلنے سے جتنی تحریک انصاف مضبوط ہوئی‘ اتنی ہی ن لیگ کمزور بھی ہوئی۔ اب سردار ذوالفقار علی کھوسہ اور انکے صاحبزادے ناراض ہیں‘ میاں نواز شریف نے گجرات میں پیدا ہونیوالے پارٹی نفاق کو اتفاق میں بدل دیا جبکہ ایسی کاوش کھوسہ صاحبان کےلئے نہیں کی گئی بلکہ ن لیگ کے بے لگام مشیروں کی بدزبانی اور بے تدبیری نے سردار صاحبان کو پارٹی سے مزید دور کر دیا۔ یہ ایسے ہی مشیروں کی بدتدبیریوں کا شاخسانہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو باہم دست و گریباں کرکے ایک تماشا لگا دیا جس کا پورا جگ تماشائی ہے۔ اس تماشے کے پیچھے بھی ایک باقاعدہ پلاننگ ہے جسے تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں کی قیادت سمجھنے سے قاصر ہے یا اپنے اپنے طاقتور ہونے کے زعم میں سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی سر پھٹول دیکھ کر شہد بھری انگلی لگانے والے اسلام آباد کے ایوانوں کی دیوار سے جھانک کر قہقہے لگا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکمت عملی سے بظاہر آدھا الیکشن تو جیت لیا ہے‘ باقی کسر الیکشن کے روز پوری ہو جائے گی۔ کیپٹن صفدر‘ امیر مقام اور صابر شاہ و مہتاب عباسی کے معاملے کا پارٹی قیادت نے نوٹس ضرور لیا لیکن ایسے واقعات سے جو معمول بن چکے کارکنوں میں مایوسی پھیلتی ہے۔ جس سے لامحالہ پارٹی کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ ن لیگ میں انتشار اور اسکی تحریک انصاف سے دھینگا مشتی جونہی جاری رہی تو یہ دونوں پارٹیاں اگلے پانچ سال پی پی اور اسکے اتحادیوں کو حکمرانی کرتے ہوئے حسرت بھری نظروں سے دیکھتی رہیں گی۔ الیکشن میں کچھ کمانا ہے تو مسلم لیگ ن اپنا گھر مضبوط کرے۔ اندرونی نفاق کو اتفاق میں بدلنے کیلئے کوئی پتھر بھی بے الٹا نہ چھوڑے۔ مسلم لیگ ن کے ہر کسی پر دروازے بغیر کسی ”اگر‘ مگر البتہ اور تاہم“ کے کھول دے‘ ق لیگ کو ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔ پیر پگارا نے کہا ہے کہ آئندہ وزیراعظم متحدہ مسلم لیگ کا ہو گا۔ اس خواب اور خواہش کو مسلم لیگ ن‘ مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرکے عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ بشرطیکہ پیر صاحب پگاڑا کو بھی قابل قبول ہو!
کسی بھی پارٹی کو اپنی مرضی کی سیاست کرنے اور اپنا اتحادی بنانے یا خود اتحادی بننے کا حق حاصل ہے۔ تاہم حقائق کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں۔ عمران خان ہوائی شہرت اور کاغذی مقبولیت کے پہاڑ سے نیچے اتریں‘ آج ملک کو دو پارٹی سسٹم کی طرف لے جانے کا بہترین موقع ہے۔ وہ اس کا تعین کریں کہ دو پارٹی سسٹم کی کارفرمائی میں ان کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ سردست ان کو الزامات اور جوابی الزامات کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گی۔ اسکے بعد فیصلہ کریں کہ ان کا فطری اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں سے کس کے ساتھ بنتا ہے اور یہ ملک و قوم کے لئے کتنا سود مند ہو سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment