About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, August 8, 2012

اَبا جی خدا کے حضور


بدھ ,08 اگست ,2012
   
اَبا جی خدا کے حضور
  فضل حسین اعوان
 

میرے قبلہ و کعبہ 91سال کی عمر میں خدا کے حضور پیش ہو گئے۔ یہ 13 رمضان المبارک 1433ھ 2اگست2012ءجمعة المبارک کی سعد گھڑی تھی۔ والدہ کا چار سال قبل 19رجب المرجب بمطابق 23جولائی2008ءکو انتقال ہوا تھا۔ والدہ کی محرومی بجا طور پر محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے میں نے لاہور سے اپنے گاﺅں جانے کا سلسلہ پہلے سے تیز کر دیا تھا۔ والد اور والدہ کے پیار کرنے کا الگ الگ طریقہ تھا۔ میں گاﺅں جاتا واپسی کے لیے اٹھتا تو امی مزید رکنے پر اصرار کرتی تھیں میں واپسی پر بضد رہتا تو ہاتھ جوڑ دیتیں جو پاﺅں کی زنجیر بن جاتے۔ اس کا میں نے یہ حل نکالا کہ ایک روز بعد آنا ہوتا تو میں کہہ دیتا آج ہی جانا ہے وہ کہتیں آج نہیں جانے دوں گی۔یہ ڈرامہ بازی عظیم ہستی کو خوش کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔ اباجی سے جب بھی اجازت مانگی انہوں نے سر پردست شفقت رکھ دیا؟
میرے دادا کا میرے والد کی پیدائش سے قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ والد صاحب کی پیدائش 1921ءکی ہے وہ فوج میں جولائی 1940ءکو بھرتی ہوئے۔ 17نومبر 1946ءکو عالمی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ اس روز شام ڈھلے وہ میدان جنگ میں تھے کہ دشمن نے مورچے سے عین سینے کا نشانہ لے کر فائر داغ دیا گولی دائیں پھیپھڑے کو چیرتی ہوئی جسم کے پار ہو گئی۔ اس دور میں جدید طب کے فقدان کے باوجود خدا نے ان کو زندگی بخش دی۔ 65ءکی جنگ میں بھی حصہ لیا، جالندھر کے قریب ملکو ترال گاﺅں سے ہجرت کرکے گاﺅں بندے کی جاگیر تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ میں سکونت اختیار کی۔ ہجرت کی صعوبتیں اپنی جگہ تاہم یہ قافلہ راستے میں لٹنے اور کسی قسم کی قتل و غارت سے محفوظ رہا۔ ابا جی کے لواحقین میں ہم پانچ بھائی ہیں۔ انتقال کے وقت ان کے خاندان کی بہو بیٹے پوتے اور پڑپوتوں سمیت تعداد چالیس ہے۔ وہ 1946ءمیں سینہ چھلنی ہونے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ خدا نے مجھے یہ گلشن و گلستان دیکھنے کے لئے زندہ رکھا۔      میں نے ہوش سنبھالا تو وہ باریش تھے۔ تہجد گزار اور باجماعت نماز کا اہتمام کرتے درود پاک خصوصاً درود تاج کا ورد کثرت سے کرتے تھے۔ سورہ یٰسین روزانہ پڑھتے، ان کی حضور سے محبت، عقیدت اور احترام کے باعث میںان کو عاشق رسول سمجھتا ہوں۔میں ان کے پاس بیٹھا ہوتا یا کوئی اور وہ تبلیغ یا کوئی نصیحت ضرور کرتے تھے۔ اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لیے خیرات کرتے، چاولوں کی دو دیگیں محرم اور دو رمضان المبارک کو دیتے تھے۔ گھر کے تمام فیصلے وہی کرتے تھے۔ ایک بار نماز کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ والدین کی روحیں ایصال کئے گئے ثواب سے مطمئن ہوتی ہیں جن کے لیے دنیا میں کوئی ایصال ثواب کے لیے نہیں ہوتا ان کی روحیں عام مسلمانوں کے ایصال کئے گئے ثواب کو چنتی ہیں۔ ایک شخص آرام سے بیٹھا یہ منظر دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن وہ بھی عام مسلمانوں کی دعاﺅں کے ثواب کو چن رہا تھا۔ کسی دوسرے نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا آج میرا بیٹا مر گیا وہ مجھے کلام پڑھ کر بخشا کرتا تھا۔
مجھے دفتر میں والد صاحب کی طبیعت بگڑنے کی اطلاع ہوئی۔ میں نے گھر والوں کو تیاری کا کہا۔ گھر سے تقریباً 6بجے روانہ ہوئے افطار کا سامان ساتھ رکھ لیا۔ ہم جلدی اس لئے جا رہے تھے کہ اباجی کو مل کر رات گیارہ بارہ بجے واپس آ جائیں گے۔ رات آٹھ بجے افطاری کے ایک گھنٹہ بعد گھر کے باہر ہی تھے کہ رونے کی آوازوں نے سکتہ طاری کر دیا۔ گویا عزرائیل ہم سے زیادہ جلدی میں تھا۔ یہ شدید حبس کا موسم تھا۔ بجلی چار گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لئے آتی تھی جو سات بجے گئی جسے 11بجے آنا تھا۔ خدا کی قدرت کہ 2اگست کو حبس میں پہلے جیسی شدت اور موسم میں حدت نہیں تھی۔ اگلے روز سپرد خاک کیا تو ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ اسلامی احکام کی جس طرح بجا آوری کرتے مجھے ان میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی ایک جھلک نظر آتی تھی۔ والد صاحب کسی بڑی جائیداد کے مالک نہیں تھے البتہ جو بھی تھی وہ ان کے نام تھی۔ چند سال قبل اس میں سے چند مرلے مسجد کے امام کی رہائش کے لئے وقف کر دیئے جس میں آج امام صاحب رہائش پذیر ہیں۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کی صحت قابل رشک تھی۔ پوری زندگی ناشتے میں دہی کی پیالی اور رات کو کھانے کے بعد دودھ کا گلاس ان کی خوراک کے لازم جزو تھے۔ وہ اس کو اپنی مثالی صحت کا راز قرار دیتے تھے۔ وہ کسی مرض میں مبتلا نہیں تھے۔ وفات سے پندرہ بیس روز قبل علیل ہوئے تاہم محتاجی ایک دن بھی نہیں رہی۔ انتقال کے دن بھی صبح باتھ روم جا کر خود ہی غسل کیا.... اس دنیا سے آخر ہر کسی نے اٹھ جانا ہے۔ بزرگ اٹھتے ہیں تو سر سے سائبان اٹھ جاتا ہے، دعاﺅں کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ والدین کے انتقال کے بعد ان کے لئے ہماری دعائیں ہی ہماری ان کے ساتھ محبت عقیدت و احترام کا اظہار اور یہی دعائیں ان کا اثاثہ ہیں۔
میری خواہش اور دعا ہے کہ مذہبی حوالے سے میں ابا جی جیسا بن جاﺅں۔ وہ جس دن فوت ہوئے اس دن کے بعد سے میری بے قراری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے اور ہم لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ جن احباب نے فونز‘ میسجز، ای میلز کے ذریعے گھر اور دفتر تشریف لا کر حوصلہ دیا اور مغفرت کے لئے دعا کی، میں ان کا شکر گزار ہوں۔

No comments:

Post a Comment