About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, August 24, 2012

24-8-12.........اب نائیجیریا کو توڑنے کا منصوبہ







26-8-12




     
اب نائیجریا کو توڑنے کا منصوبہ
24- اگست 2012 -8    
نائیجریا بلحاظ آبادی افریقہ کی سب سے بڑی اور عالم اسلام کی انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسری بڑی ریاست ہے۔ آئندہ چند سال میں شاید اس کا موجودہ سٹیٹس بدل جائے۔ کشمیری اور فلسطینی آزادی کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کئے چلے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ انکے حقوق کو تسلیم کرتی ہے لیکن ایک حد سے آگے جانے سے اسکے پَر جلتے ہیں۔ لاکھوں کشمیری اور فلسطینی آزادی کی خاطر اپنی جانیں دے چکے اور یہ سلسلہ ہنوز اور بدستور جاری ہے۔ سرخرو اس اس لئے نہیں ہو رہے کہ انکے حقوق کی راہ میں وہی ممالک اور تنظیمیں رکاوٹ ہیں جو خود کے انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کی دعویدار ہیں جنہوں نے 2002ءمیں انڈونیشیا کو تقسیم کرکے مشرقی تیمور اور 2011ءمیں سوڈان کو توڑ کر جنوبی سوڈان کی ریاستیں قائم کردیں۔ آزادی کے نام پر انڈونیشیا اور سوڈان کو اس لئے توڑا گیا کہ اس تخریب کی کوکھ سے مسیحی ریاستوں نے جنم لینا تھا۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق کو پس پشت اس لئے ڈالا جا رہا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں۔ مسلمان زیرعتاب ہیں، انکا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ انکا خونِ ارزاں اور بہانے والوں سے کسی سطح پر جواب طلبی نہیں۔
اب انڈونیشیا اور سوڈان کی تقسیم کی طرز پر نائیجریا کو توڑ کر جنوبی نائیجریا کے نام سے ایک اور عیسائی مملکت کے قیام کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ منصوبہ ساز پھر وہی ہوں گے، اقوام متحدہ امریکہ اور اسکے جھولی چک ممالک.... نائیجریا کی آبادی 16 کروڑ ہے، ان میں سے 55 فیصد مسلمان، عیسائیوں کو بڑی اقلیت کی حیثیت حاصل ہے۔ آج نائیجریا شورش اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں بم دھماکے اور مسلح حملے ہورہے ہیں، بارود کے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر عیسائیوں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر حملے اور بم دھماکے کے بعد الزام بوکو حرام پر لگا دیا جاتا ہے۔
نائیجریا کے 36 میں سے 18 صوبوں میں مسلمان بڑی اکثریت میں ہیں۔ نائیجریا افریقہ کی دوسری بڑی معیشت اور آمدنی کا دارومدار تیل کی دولت پر ہے۔ نائیجریا کی کرپٹ قیادتوں کے باعث تیل کی دولت کے ثمرات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوئے۔میڈیا رپورٹس‘ تجزیات اور محمد احمد کی تحقیقات کے مطابق نائجیریا افریقہ کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اپنے وسیع تیل کے ذخائر اور بدعنوان قیادت کی بدولت نائجیریا ہمیشہ سے سرمایہ دارانہ نظام کی علم بردار بڑی بڑی تیل کمپنیوں اور دیگر ملٹی نیشنلز کیلئے جنت کا درجہ رکھتا ہے۔ تیل سے حاصل شدہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود نائجیریا کی آبادی کی اکثریت انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایک دور میں صدر ثانی اباچہ دنیا کے چوتھے بڑے کرپٹ حکمران تھے۔نائجیریا کے مسلمانوںکی اسلام سے محبت مثالی ہے۔ اسلامی شریعت کے نفاذ کیلئے نائجیرین مسلمانوں نے کافی جدوجہد کی۔ 1903ءمیں انگریزوں کے قبضے سے پہلے شمالی نائجیریا کے بیشتر علاقے سوکوٹو خلافت کا حصہ تھے جو کہ 1802ء میں عالم باعمل عثمان دان فودیو نے مقامی حکمرانوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کرکے قائم کی۔یہاں تک کہ موجودہ دور میں بھی سوکوٹو کے سلطان کو امیر المومینین کا خطاب دیا جاتا ہے۔جو کہ عام طور پر نائجیرین نیشنل سپریم کونسل فار اسلامک افئیرز کے سربراہ بھی ہوتے ہیں۔2000-1999 ءسے اب تک 12 صوبوں میں شریعت نافذ ہو چکی ہے۔جو کہ مغربی دنیا ، اسکے متعصب میڈیا اور جنوبی نائجیریا کے عیسائیوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتی ہے۔عیسائی مشنری شریعت کے نفاذ کو نائجیریا میں عیسائیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں عیسائیت کی تبلیغ میں کئی گنا تیزی لائی گئی ہے۔ کئی نئے چرچ تعمیر کیئے گئے ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے نفرت پھیلائی جا رہی ہے جب کہ عیسائی بین الاقوامی میڈیا میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے ہیں۔جس دن سے مسلم علاقوں میں شریعت نافذ ہوئی ہے عیسائی پوری کوشش میں مصروف ہیں کہ مرکزی حکومت میں اعلی ترین عہدوں پر قبضہ کیا جائے اور فوج میں بھی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جائے۔ 
2002ءمیں شمال مشرقی صوبہ بورنو کے دارالحکومت میڈوگری میں جماعة اہل السنة للدعوة والجہاد کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی محمد یوسف نامی ایک نوجوان سلفی عالم تھے۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ تمام نائجیریا میں شریعت کا نفاذ تھا انہوں نے سرِ عام نائجیریا کے سیکولر طرزِ حکومت کو غیر اسلامی کہا اور مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ رائج نظام کو اکھاڑ دیں اور نائجیریا میں اسلامی حکومت قائم کریں۔شیخ یوسف مغرب اور عیسائیوں پر کھلم کھلا تنقید کرتے تھے البتہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کبھی بھی عیسائیوں پر حملوں پر نہیں اکسایا۔اس جماعت کے لوگ صرف عربی بولتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ انگلش وہ زبان ہے جس کے بل بوتے پر مغربی دنیا نے کرپشن اور بے راہ روی پھیلائی ہے۔ اس جماعت میں ہر ا±س چیز کیلئے نفرت کا پہلو پایا جاتا تھا جس کا تعلق مغربی عیسائی دنیا سے ہے چاہے وہ لباس ہو ، مغربی تعلیم ہو یا روز مرہ کے معاملات ہوں۔شمالی نائیجریا کی مقامی زبان ہوسہ میں جدید نظامِ تعلیم کو بوکو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد انگریزوں نے ڈالی۔دورِ غلامی کے اوائل میں مسلمانوں نے بوکو سے فاصلہ رکھا کیونکہ اسے عیسائیت کی تبلیغ کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔البتہ کچھ ہی عرصے بعد جدید سکولوں سے پڑھنے والے طلبہ اہم ریاستی عہدوں پر فائز ہو گئے۔ چنانچہ اگلی نسل نے اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔تاہم بعض قدامت پرست مسلمان بوکو کو آج بھی غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اسکی جگہ دینی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی پیغام شیخ یوسف کی تعلیمات کا بھی حصہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں نے اس جماعت کا نام بوکو حرام رکھدیا۔جسکا مطلب ہے "مغربی تعلیم حرام ہے" بعد میں یہی نام مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے اختیار کر لیا۔ شیخ یوسف نے مسلمانوں پر زور دیا کے وہ اس کرپٹ اور مغربی نظام سے کنارہ کشی اختیار کریں جس میں سیکولرازم اور جمہوریت جیسے غیر اسلامی نظریات شامل ہیں اور اسکی بجائے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ اگرچہ شیخ یوسف نائجیرین حکومت کے خلاف تھے اور سرکاری نوکری کو حرام کہتے تھے، جبکہ انکی جماعت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ وہ اسلحہ جمع کر رہے ہیں، ان پر یا انکی جماعت کے کسی فرد کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا-کئی لوگوں کا خیال تھا کہ بوکو حرام مذہب کے نام پر سیاسی طاقت اور فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بوکو حرام اور نائجیرین فوج کے درمیان 2009ءتک کوئی مسلح تنازعہ نہں ہوا تھا،اسکے باوجود چند لوگوں نے بوکوحرام کو نائجیرین طالبان کہنا شروع کردیا۔آج تک نائجیرین حکومت اور اسکے مغربی آقا بوکو حرام کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔    

کئی سالوں کے تناو¿ اور چند ایک چھوٹے موٹے واقعات کے بعد جولائی 2009ء میں ایک بڑا تنازعہ پیدا ہوا۔میڈوگری شہر میں بوکو حرام کے ایک رکن کے جنازے میں شریک چند ارکان کو پولیس نے قبرستان جاتے ہوئے روکا اور نوجوانوں کو موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہننے کو کہا۔نوجوانوں کے انکار پر جھگڑا ہوا جس کے بعد پولیس نے فائرنگ کردی۔اسکے نتیجے میں کئی ارکان زخمی ہو گئے،اس کے ردِعمل میں بوکوحرام نے احتجاج کیا اور سرکاری عمارات پر دھاوا بول دیا۔ تشدد کی یہ لہر جلد ہی پانچ صوبوں میں پھیل گئی اور کئی دن تک جاری رہی۔مرکزی حکومت نے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے میڈوگری پر فوج کشی کردی اور بوکو حرام کے ارکان کو چن چن کر شہید کیا اور شیخ یوسف کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے کے بعد شہید کردیا گیا۔جبکہ دعویٰ یہ کیا گیا کہ انکی شہادت جھڑپ میں ہوئی۔انکی میّت ہتھکڑیوں سمیت پائی گئی۔تقریباً ایک ہزار بوکو حرام کے ارکان اس فوج کشی میں شہید ہوئے۔بہت سوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کئی کو دورانِ حراست شہید کردیا گیا، بوکوحرام پر پابندی عائد کردی گئی اور اسکی مساجد کو شہید کردیا گیا ، جبکہ زندہ بچ جانے والے ارکان بکھر گئے اور انڈرگراونڈ چلے گئے۔
ایک سال کی خاموشی کے بعد بوکوحرام کا نام ایک بار پھر مقامی میڈیا میں اس وقت نمودار ہوا جب چند موٹرسائیکل سوار حملوں میں ایسے کئی افراد کو قتل کر دیا گیا جو کہ 2009ءمیں بوکو حرام پر کیے جانے والے آپریشن میں کسی بھی طور پر ملوث تھے۔ تاہم کسی جماعت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہ کی-جون 2011ءمیں ابوجا میں نیشنل پولیس ہیڈکواٹر میں بم دھماکہ ہوا اسکے دو ماہ بعد ابوجا میں ہی اقوامِ متحدہ کے آفس میں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود خودکش کار بم حملہ ہوا جس میں 24 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے۔اسی سال دسمبر میں کرسمس کے موقعہ پر کئی گرجا گھروں اور سرکاری عمارتوں پر بم حملے ہوئے جن کا الزا م بوکو حرام پر لگایا گیا۔جنوری 2012ءمیں نائیجریا کے سب سے بڑے مسلم شہر کانو میں سرکاری عمارات پر حملوں کی لہر میں ایک ہی دن میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے یہ بوکوحرام کے اب تک کے مبینہ حملوں میں سب سے بڑا حملہ تھا۔حالیہ مہینوں میں کئی گرجا گھروں پر بم حملے اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے اکثر کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تاہم میڈیا میں ہر بار بوکوحرام کو ہی موردِالزام ٹھہرایا گیا۔نائیجیریا آج شورش‘ بدامنی‘ بم دھماکوں اور مسلح حملوں کی لپیٹ میں ہے‘ زیادہ تر نشانہ گرجا گھروں کو بنایا جا تا ہے۔ الزام بوکوحرام پر لگا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے گرجا گھروں پر حملے ہونگے تو مسیحی برادری مظلوم ٹھہرے گی۔ انڈونیشیا کے مشرقی تیمور اور سوڈان کے جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کی طرح نائیجیریا کو توڑنے کی سازش اس وقت بے نقاب ہو گئی جب پتہ چلا کہ گرجا گھر بم سے ا±ڑانے کی تین ناکام کوششوں میں گرفتار ہونے والے تمام افراد عیسائی تھے۔اس سال فروری میں پولیس نے بوکوحرام کے مضبوط گڑھ باو¿چی میں ایک عیسائی عورت لیڈیا جوزف کو چرچ جلانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا۔ جوزف نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ اسکا یہ عمل اپنے بوائے فرینڈ کی جانب سے دھوکہ دیے جانے پر جذباتی صدمے کا نتیجہ تھا۔ ایک اورملزم وزڈم کنگ کو پولیس نے جنوبی صوبے بیلسا میں جو کہ صدر گڈلک جوناتھن کا آبائی صوبہ ہے ، ایک چرچ کو بم سے اڑانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا۔ایک تیسرے واقعے میں پولیس نےباو¿چی کے نواحی علاقے سے آٹھ عیسائیوں کو گرفتار کیا جو کہ اپنے مخالف گروہ کے چرچ کو جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔"اگر یہ ملزمان گرجا گھروں کو اڑانے میں کامیاب ہو جاتے تو تمام تر الزام بوکوحرام پر عائد کیا جاتا اوراسکا شکار اسلام اور مسلمان بنتے"۔ ان خیالات کا اظہار شریفہ یوسف نے کیا جو کہ المومنات نامی مسلم خواتین کی تنظیم کی ترجمان ہیں۔بوکو حرام کئی لوگوں کے نزدیک ایک راز ہے- نائجیریا کے صدر نے حال ہی میں الزام عائد کیا ہے کہ بوکو حرام کے کئی ہمدرد حکومت میں شامل ہیں جو اسے قانون سے بچانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں- یہ واضح اشارہ ہے کہ شاطر صدر نے اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمانوں کو اس مسئلے میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے- کچھ حلقوں میں سوڈان کی طرز پر نائیجریا کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی سازشیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جسکا مقصد نائجیریا کے جنوب میں تیل کی دولت سے مالامال عیسائی ریاست کا قیام ہے۔شمال میں شریعت کے نفاذ کے بعد عیسائی حلقوں میں علیحدہ ملک کی باتیں کی جارہی ہیں۔ انکا خیال ہے کہ جنوبی نائجیریا تیل کی دولت کے ذخائر اور سمندر تک رسائی کی بدولت ایک انتہائی امیر ملک کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔جسکی دولت کو پورے افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔نائیجیریا کی شکست و ریخت حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے۔ اس کی راہ میں او۔آئی۔سی یقینا سنگ راہ بن سکتی ہے اگر یہ خواب گراں سے بیدار ہو جائے تو!        (ختم شد)

....٭....٭....٭....







No comments:

Post a Comment