About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, July 27, 2012

خود رہنما ئی


جمعہ ,27 جولائی ,2012

   
خود رہنما ئی

یوں تو ملک میں کوئی بحران اور مصیبت ایسی باقی نہیں رہی جس میں قوم مبتلا نہ ہو‘ مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ ایسا عذاب بن کر نازل ہوئی کہ لوگ باں باں کر اٹھے۔ یہ کوئی قدرتی آفت ہے نہ بجلی کی ملک میں کوئی کمی ہے۔ عوام کو حکمرانوں کی بدعملی‘ کرپشن اور ”فرینڈلی“ اپوزیشن کی طرف سے اپنا کردار ادا نہ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسے شعبوں اور اداروں کو چلانے والے کسی ”حضور کی خدمت“ کے نتیجے میں منظور نظر ہوئے یا ڈیل کے سبب۔ وزیر ریلوے نے تو اپنے شعبہ کے مسائل کا حل ریلوے کو سرے سے ختم کر دینے میں ہی تلاش کیا ہے۔ میڈیکل ڈاکٹرز‘ وزیر پٹرولیم گیس کی بچت کےلئے اربوں روپے سے گیس پر منتقل ہونےوالی تیس لاکھ گاڑیاں بند کر دینے تجویز پیش کرتے ہیں۔ یورپ اور عرب ممالک میں ایک تو تیل کی بہتات ہے دوسرے وہاں کی فی کس آمدنی پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اس لئے وہاں ٹرانسپورٹ کےلئے گیس کی ضرورت ہی نہیں۔ مغرب میں پلنے، پڑھنے اور بڑھنے والے کل عوام کو روٹی کے بجائے کیک کھانے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ عوام سے یہ بھی کہہ ڈالیں کہ فلاں برانڈ کی سستی شراب پی لیا کریں‘ ہمارے دیئے ہوئے غم دور ہو جائینگے۔ چونکہ ان کاپاکستانی معاشرے اور اسلامی تہذیب و تمدن اور کلچر سے دور کا تعلق نہیں۔ یہ عام آدمی کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں تو اصلاح کی تدبیر کیا خاک کرینگے؟
عوام کے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وہ اپنی قسمت پر دانت پیس رہے ہیں۔ بجلی کا بحران جان کو آ گیا ہے رہی سہی کسر قیمتوں میں ہر ماہ پچھلے مہینوں کا فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کے نام پر بھاری رقم ڈال کر بل میں دو سے تین گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اب تو دیہات‘ قصبات اور شہروں میں یکساں بیس بیس گھنٹے بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ وجہ صرف یہ کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کی جاتی اگر کوئی پلانٹ خراب ہے تو عدم مرمت کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ سرکار ی پاور پلانٹس کو تیل کی فراہمی اس لئے بند ہے کہ تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کو حکومت بقایا جات ادا نہیں کرتی۔ حالانکہ عام صارفین سے ہر ماہ بل وصول کئے جاتے ہیں۔ بڑے نادہندگان پر حکومت ہاتھ نہیں ڈالتی جس کے باعث قرضہ جات چار سو ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ اس کا خمیازہ بھی ایماندار اور بروقت بل ادا کرنے والے صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دو سو ارب روپے کے رینٹل پاور پراجیکٹس محض چند بڑوں کے پیٹ میں اتر گئے۔ یہی سرکلرڈیٹ کےلئے استعمال ہوتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ راجہ نے وزیراعظم بنتے ہی وہی باجہ بجایا کہ لوڈشیڈنگ پر جلد قابو پالیں گے‘ ساتھ ہی وعدہ کیا کہ رمضان المبارک میں سحر و افطار کے دوران پورے ملک میں بجلی کی ترسیل جاری رہے گی۔ مگر حسب معمول راجا کا باجہ ‘ باجہ ہی ثابت ہو رہا ہے۔آج لوگ واقعی پریشان اور شدید گرمی میں جھلسی ہوئی زندگی اور ٹھپ ہوئے کاروبار اور بے روزگاری کی وجہ سے مشتعل بھی ہیں۔ وہ سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ جلسے جلوس، جلاﺅ گھیراﺅ اور توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ بسیں، ویگنیں، دکانیں، واپڈا دفاتر اور تنصیبات جلا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ٹرین نذر آتش کر دی گئی‘ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکا، توڑا اور جلایا گیا۔ یہ وزیروں مشیروں یا صدر کی سواریاں تو ہیں نہیں جن کے جلنے کی انہیں فکرلاحق ہو۔ ان کی بلا سے ملک میں موجود ہر سائیکل، موٹر سائیکل، بس ویگن اور سرکاری دفتر جلا دیئے جائیں انکی حکمرانی پر کوئی زد آئےگی نہ کارکردگی اور کمائی پر۔عوام اپنا مینڈیٹ تو واپس نہیں لے سکتے لیکن سیاستدانوں کو اصلاح پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جلاﺅ گھیراﺅ توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی و اشتعال سے نہیں بڑے پُرامن طریقے سے۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ شباب ملی جیسا وہ کام کریں جو شباب ملی نے اپنے شباب کے دوران کیا تھا۔ اب تو بیچاری ”کرائے پر ریلی کےلئے دستیاب“ کا اشتہار اٹھائے پھرتی ہے۔ بہرحال مختصر واقعہ یوں ہے کہ مسجد شہدا کے قریب لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جس کے درمیان ایک شخص کا کل لباس ایک کچھا اور ٹائی تھا۔ اسکی ٹنڈ ہوئی تھی کوئی چپت رسید کرتا تو کوئی ٹھاپ مار رہا تھا۔ پتہ چلا کہ حضرت سنسر بورڈ کے چیئرمین ہیں جنہیں ایک فحش فلم کو سنسر شدہ کاسرٹیفکیٹ جاری کرنے پر شباب ملی کے نوجوان دفتر سے گھسیٹ کر میدان حشرمیں لے آئے تھے۔
عوام یہ بھی نہیں چاہتے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کا وہ حال کریں جس کی ایک جھلک شہباز شریف اور راجہ ریاض کے بیان اور جوابی بیان میں نظر آتی ہے۔افسوس صد افسوس‘ حکمرانوں کو عوام کی حالت زار بدلنے میں حالت جنگ میں ہونا چاہیے تھا مگر وہ تو دست و گریباں ہو کر آپس میں ہی جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ عوام نے حکمرانوں کی بے وفائی اور بے اعتنائی دیکھ لی‘ ان سے مسیحائی کی توقع عبث ہے۔ اپنے مسائل کے حل کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی راہبر و رہنما اور مسیحا کا انتظار کئے بغیر ہم خود اپنا رہنما اور مسیحا بنیں، اپنے اپنے حلقے کے عوامی نمائندو ںکو گھر سے نکالیں جنہیں انہوں نے بڑی امید سے اپنے مسائل کے حل کیلئے منتخب کیا تھا، ہر چوک کو تحریر سکوائر بنا کریا ”بازار مصر“ لگا کر انہیں اپنے ساتھ بٹھائیں۔ بلا امتیاز اسکی پارٹی وابستگی کے۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور تمام وزیر عوامی نمائندے ہیں‘اپوزیشن بھی قطعاً قطعاً ”پوتر“ نہیں۔ ان کو اس وقت تک بٹھائے رکھا جائے‘ جب تک عوام اپنے تمام تر مسائل سوفیصد حل نہ کروا لیں۔ یہی ایک واحد طریقہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق حکومت کو راہ راست لانے اور مسائل سے نجات اور گلوخلاصی کا ہے۔ پھر ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑےگی کہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں!

No comments:

Post a Comment