About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, July 5, 2012

سمندل- قُقنُس


انجام
فضل حسین اعوان ـ 8 جون ، 2010

 ہیمبرگ کے ایک ڈیزائنر نے چائے کی کیتلی سے بیزار‘ چائے بنانے اور نوش فرمانے والوں کے لئے کیتلی کے ایک سرے پر بانسری فٹ کر دی ہے جس سے چائے یا قہوے کا پانی گرم ہونے کے ساتھ ساتھ بھاپ سے موسیقی کے سر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی بہت بڑی ایجاد نہیں یوں سمجھ لیجئے باورچیوں اور خانساموں کے لئے ایک تفریح ہے۔ جبکہ اس سے کہیں بڑھ کر ایجادات ہو چکی ہیں۔ انسان جتنا بھی ترقی یافتہ ہو جائے‘ قدرت کاملہ کی تخلیق کی طرز پر تخلیق نہیں کر سکتا۔ وہ اتنا ہی کر سکتا ہے جتنا شعور دیا گیا ہے۔ تان سین کے بارے میں مشہور ہے کہ راگ کے دوران اس کے سروں کے اثر سے آگ لگ جایا کرتی تھی۔ خدا کی قدرت دیکھئے قُقنُس ایک پرندہ ہے۔ خوش رنگ اور خوش آواز۔ اس کی چونچ میں 360 سوراخ ہیں۔ ہر سوراخ سے ایک راگ نکلتا ہے۔ جب مرنے لگتا ہے تو لکڑیاں جمع کرکے اوپر بیٹھ جاتا ہے۔ دیپک راگ الاپنے سے لکڑیوں میں آگ لگتی ہے تو جل مرتا ہے۔ بارش سے اس راکھ سے انڈہ پیدا ہوتا ہے جس سے نیا قُقنُس جنم لیتا ہے۔ اس کی عمر 500 سال بتائی جاتی ہے۔ سمندل کا ذکر بھی ملاحظہ فرمائیے۔ یہ آگ میں پیدا ہونے والا جانور ہے۔ آگ میں ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ آگ سے باہر نکلے تو پانی سے باہر آنے والی مچھلی کی طرح زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بالوں سے برتن صاف کرنے والی جالی بنتی ہے۔ جالی کو صاف کرنے کے لئے آگ کے اندر رکھنا پڑتا ہے۔ سورج پر کسی بھی مخلوق کے نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو یقین کر لینا چاہئے کہ وہاں اور کچھ ہو نہ ہو سمندل تو ضرور ہوں گے۔قیامت کی نشانیوں میں دابتہ الارض کے ظہور کا بھی ذکر ہے۔ یہ مسجد الحرام کے قریب صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سے ایک زلزلے سے نمودار ہو گا۔ چوپائے کا قد 60 گز بتایا گیا ہے۔ شکل انسان جیسی‘ پائوں اونٹ‘ گردن گھوڑے‘ سر ہرن‘ سینگ بارہ سنگھے اور ہاتھ بندر جیسے ہوں گے۔ ایک ہاتھ میں حضرت موسیٰؑ کا عصا‘ دوسرے میں حضرت سلمانؑ کی انگشتری ہو گی۔ یہ لوگوں سے باتیں بھی کرے گا۔ قُقنُس کے حوالے سے شاید کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ ہو کہ قُقنُس ایک فرضی پرندہ ہے۔ ہما کے بارے میں بھی لوگوں کا شاید یہی خیال ہو لیکن فرضی اور حقیقی کی بحث میں پڑے بغیر غور فرمائیے کیا ایسے جانوروں کو پیدا کرنا خدائے بزرگ و برتر کے لئے ممکن نہیں؟ ذات کبریا کے ایک ’’کن‘‘ سے پوری کائنات تخلیق ہو سکتی ہے‘ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ تمام اس کی دسترس میں ہے وہ اس میں کسی بھی وقت کمی بیشی اور تبدیلی پر قادر ہے۔ ہمارے سامنے جدید دور میں بے شمار مثالیں ہیں۔ شاہوں کو گدا بنتے‘ بادشاہوں کو محلات سے نکل کر جیلوں میں جاتے دیکھا۔ نصیب میں تخت تھا تو تختہ دار بھی مقدر بن گیا۔ ایسے مردِ معقول بھی موجود ہیں جنہوں نے مروجہ سیاست پر اس لئے لعنت بھیج دی کہ قائداعظم کے بعد اس میں جھوٹ کا عنصر غالب آ گیا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو راہزن سے راہبر بنے‘ جن سے امید تھی کہ انسان بھی بن جائیں گے لیکن اندر کی راہزنی برقرار ہے۔ ماضی کے کرتوتوں کو سرمایہ سمجھتے ہوئے حال پر نظر‘ مستقبل سے بے خبر ہیں۔ انسان کا مستقبل ایک سانس اور سو سال بھی ہو سکتا ہے۔ سو سال بعد بھی ٹھکانہ دوگز زمین اور کل ملکیت لٹھے کی چادر ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے قومی خزانہ بھرتا ہے۔ جس میں ملین ملین اور بلین بلین کا ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ لٹنے والے بے حال اور لوٹنے والے بظاہر خوشحال ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف انسان بھوکے مر جاتے ہیں دوسری طرف ناجائز دولت کمانے والوں کے کتے گھوڑے اور کھوتے ائرکنڈیشنر عمارتوں میں انواع و اقسام کے پکوانوں‘ خوراکوں اور چاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان اور کاروباری لوگ اپنی جائز ناجائز دولت پاکستان لے آئیں تو تمام قرضے اترنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم خوشحال ہو سکتے ہیں۔ بجٹ میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کے ماہانہ اخراجات 90 کروڑ سے زائد رکھے گئے ہیں۔ اتنے بڑے اخراجات پاکستانی عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ‘ تمام بیوروکریٹس‘ وزیر‘ مشیر اور عوامی نمائندے فضولیات سے ہاتھ کھینچ لیں تو ماہانہ کھربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ یہ پیسے ہزاروں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے‘ سینکڑوں بے کسوں کو خودکشی سے بچانے اور لاکھوں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment