About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, July 3, 2012

بغلول اعظم کون؟


منگل ، 03 جولائی ، 2012

بغلول اعظم کون؟
فضل حسین اعوان ـ
قدرت نے چھوٹے سر اور بڑے قد و قامت والے کو بڑا آدمی بننے کا موقع دیا تو یہ موقع اس نے محض ایک شخصیت کے مفادات کا نگہباں بن کر گنوا دیا۔ وزارت عظمیٰ کے عظیم منصب پر بٹھانے کے احسان کی ممنونیت کے سامنے ریاست‘ آئین اور عدلیہ ہیچ ٹھہرے۔ اقتدار کے دوران اپنے اختیارات کا منبع اور طاقتور ہونے کا زعم تو تھا ہی اب نااہلی کے بعد سقراطیت کے دورے پڑ رہے ہیں۔ سقراط نے کیا ایسے ہی کارناموں پر زہر کا پیالا پیا تھا۔ جو موصوف دکھا گئے؟
20 گھنٹے تک بجلی کی بندش‘ گیس ناپید‘ پٹرولیم کی قیمتیں آسمان پر‘ مہنگائی بیروزگاری انتہا پر‘ ڈرون حملوں پر خاموشی‘ کشمیر پالیسی دشمن کے لئے من چاہی پسندیدہ قوم کے ٹائٹل کے پیچھے غائب‘ وہ جس طرح کے مبہم‘ بے معنی‘ لایعنی اور حقائق سے دور بیانات دیتے رہے ان کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لاہور میں ایک تقریب کے دوران مزید فرمایا ”یہاں وزرائے اعظم کے ساتھ جو ہوتا رہا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں کوئی اوپر گیا کوئی باہر گیا‘ میں واحد وزیراعظم ہوں جو ملک میں ہے۔ نواز شریف صاحب یقیناً باہر گئے۔ بھٹو صاحب تختہ دار پر محترمہ اپنوں کے ہاتھوں شہادت کے مقام پر پہنچیں۔ محمد خان جونیجو ملک میں رہے۔ نگرانوں کی بات نہ بھی کریں‘ ظفر اللہ خان جمالی اور چودھری شجاعت حسین پاکستان ہی میں موجود ہیں۔ وہ تاریخ میں اپنی نااہلی کے فیصلے کو بھٹو کی پھانسی کے فیصلے جیسا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسی تقریب میں ججوں کی ”شان“ میںایک نظم بھی پڑھی اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ انہوں نے نااہلی کے فیصلے پر وزارت عظمیٰ چھوڑنے پر احتجاج نہیں کیا۔ یہ اشعار چونکہ شردھالو ¶ں کی مجلس نامعقولاں میں پڑھے گئے اس لئے واہ واہ ہونا لازم تھا۔ گیلانی صاحب نے ملک اور اپنے خاندان میں کرپشن کو فروغ نہ دیا ہوتا جس سے عام آدمی کی زندگی عذاب بنی تو ان کی رخصتی کے موقع پر پوری قوم ماتم کناں ہوتی لیکن کسی طرف سے بھی افسوس نہ ہوا۔ خود ان کے پارلیمنٹیرین ساتھیوں نے ایک لمحہ میں اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔ ویسے ایک بات کا تو سب کو خیال رکھنا چاہئے کہ جو شخص کل تک ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا مالک تھا شاہ سے بے نوا بن گیا ہے تو اس کے کڑوے کسیلے بیانات کا بُرا نہیں منانا چاہئے۔ انہوں نے عوام کے ساتھ چار سال میں جو کچھ کیاوزارت عظمیٰ سے رخصتی اس کے بدلے میں کافی ہے لیکن انصاف تو بہرحال ہونا ہے۔ وہ توہین عدالت کی سزا پا گئے۔ لوٹ مار کا حساب باقی ہے۔ انہوں نے قوم پر ایک ستم یہ بھی ڈھایا کہ اپنے اقربا کی کرپشن کو تحفظ دینے کی پوری کوشش کی۔ اب جبکہ وہ وزیراعظم نہیں رہے تو ان کے فرزند ارجمند کے سرچ وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ اگر وہ ایفڈرین کیس میں ملوث ہوئے تو ممکن نہیں کہ اے این ایف کو چکر دینے میں کامیاب ہو سکیں‘ قوم کا حافظہ کمزور سہی لیکن کچھ چیزیں مدتوں یاد رہتی ہیں ۔ رحمت شاہ آفریدی اور منور منج کے کیسز کی تحقیقات بھی اے این ایف نے کی تھی۔ دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ عمل درآمد نہ ہونا ایک الگ ایشو ہے تاہم دونوں طویل عرصہ جیل میں رہے۔ وہی اے این ایف جس کا کنٹرول فوجیوں کے پاس ہے‘ جن کو موسیٰ گیلانی کیس کی تحقیقات کرنے پر بڑے گیلانی صاحب ڈراتے دھمکاتے رہے۔ کسی کو معطل کسی کا تبادلہ کیا۔ موسیٰ گیلانی کا کیس اسی اے این ایف کے پاس ہے۔ اگر اٹارنی جنرل عرفان قادر کے بس میں ہوتا تو یہ معاملہ رفع دفع کرانے کے لئے نیب کو بھجوا دیتے۔ وہاں بھی ایک سابق ایڈمرل حکمرانوں سے گیلانی کی طرح اپنی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ وہ زبان سے تو کہتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن ان کا عمل ایسا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا مالک ان لوگوں کو سمجھتے ہیں‘ جنہوں نے ان کو کوئلوں کا سوداگر بنایا۔ ڈاکٹر ارسلان کیس کی جزیات تک سے لوگ خصوصاً میڈیا واقف ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو اس کیس میں ملک ریاض‘ ان کے داماد اور ڈاکٹر ارسلان سے سخت تفتیش کرنے کی ہدایت کی اس روز چیئرمین نیب نے فرمایا تھا کہ یہ نیب کا کیس نہیں ہے۔ اب وہ تحقیقات کے لئے ٹیم بنا رہے ہیں۔ گذشتہ روز انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ڈاکٹر ارسلان کے وکیل کی طرف سے لکھا گیا خط دھمکی آمیز ہے جو توہین عدالت بھی ہے۔ عدالت نے تحقیقات کے لئے نہیں‘ اٹارنی جنرل نے کہا ہے۔ پھر توہین عدالت کیسی؟ اٹارنی جنرل کے مفادات اور احسانات کا منبع و ملجا بھی وہی ہے جو چیئرمین نیب کاہے‘ اسی پریس کانفرنس میں جناب ایڈمرل صاحب نے کہا کہ نیب بنیادی طور پر چوری اور ہیرا پھیری سے قومی خزانہ کو لوٹنے والوں سے پیسہ واپس لینے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا یہ کوئی پراسیکیوننگ ریجن نہیں ہے۔ ارسلان کیس کا قومی دولت کی چوری یا لوٹ مار سے تعلق ہی نہیں ہے یہ دو افراد کے مابین لین دین یا مبینہ طور پر رشوت لینے دینے کا معاملہ ہے۔ پھر نیب کس خوشی میں تحقیقات کر رہا ہے؟ 
سابق وزیراعظم اور موجودہ چیئرمین نیب کی طرح رحمن ملک بھی بزعم خویش بقدر جثہ بڑے دانشور ہیں۔ آج فرمایا سرجیت سنگھ کے جاسوس ہونے پر بھارت معافی مانگے۔ کیا کہنے! کیا سرجیت فرار ہوکے واپس چلا گیا؟ آپ نے خود چھوڑا‘ جاسوس کو چھوڑنے والوں پر کیس ہونا چاہیے ۔ ملک صاحب کے بے معنی بیانات و اعلانات کی ایک طویل فہرست ہے‘ ان جیسے کئی دیگر ہم جماعت بھی ایسی بولیاں بولتے رہتے ہیں۔اپنی محدود عقل دانی سے یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے لغو بیانات کی حیثیت سے قوم واقف نہیں؟ آخر یہ دوسروں کو اپنے جیسا بغلول کیوں سمجھتے ہیں؟ عوام اور میڈیا کو حالات و واقعات‘ بیانات و اعلانات اور لغویات و فریبیات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر بغلول اعظم کا تعین کر دینا چاہئے۔ اپنے جیسوں کے لئے عرض ہے کہ بغلول کا لغاتی مطلب بے وقوف‘ احمق‘ سادہ ‘ کو دن بدھو اور چھچھورا ہے۔


No comments:

Post a Comment