About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, July 4, 2012

ججوں کی چھٹیاں


جمعرات ، 05 جولائی ، 2012
۔
ججوں کی چھٹیاں
فضل حسین اعوان 
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چھٹی کا اشتیاق عام آدمی کےلئے کچھ گہنا سا گیا ہے۔ خاص طور پر جن سرکاری اور غیرسرکاری ملازمین کو ڈیوٹی کی جگہ پر اے سی کی سہولت حاصل ہے۔ ان میں سے اکثر جن کو کام موت دکھائی دیتا تھا ‘اب بنا بجلی کے گھر میں ہفتہ وار چھٹی اپنی فیملی کے ساتھ گزارتے ہوئے کوفت ہوتی ہے چونکہ چھٹی لازم ہے اس لئے چھٹی کا دن گھر پر گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی مجبوری ”پڑھاکو“ طلباءو طالبات کو بھی درپیش ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ان کےلئے لازم ہیں۔ ان کو مجبوراً دو تین مہینے کتابوں سے لاتعلق رہنا یا اکیڈیمیز کی اوکھلی میں سر دینا پڑتا ہے۔ ایسی لازم چھٹیاں عدالتوں میں بھی ہوتی ہیں۔ نہ صرف گرمیوں میں بلکہ سردیوں میں بھی ۔سپریم کورٹ میں نہیں ہوتیں۔ ہائیکورٹ میں دو ماہ گرمیوں، 20 دن سردیوں میں‘ لوئر کورٹس میں بالترتیب ایک ماہ اور ایک ہفتہ ہوتی ہیں۔ ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کے جج سوائے چند ایک کے جو شاید ہنگامی ضمانتوں وغیرہ کےلئے بیٹھتے ہیں۔ باقی سب چھٹی پر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں اور عدلیہ کے سوا کوئی تیسرا ادارہ محکمہ یا شعبہ نہیں ہے۔ جہاں بیک وقت سارا سٹاف چھٹیوں پر ہو۔ فوج میں ڈیڑھ دو ماہ کی چھٹیوں کی سہولت ہے لیکن بیک وقت نہیں۔ ڈاکٹروں سمیت دیگر سرکاری ملازمین کو بھی ایک مخصوص تعداد میں چھٹی مل جاتی ہے۔ ان کو ایک دوسرے کی سہولت کےمطابق ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہمارے جیسے تعلیمی پسماندگی کی دلدل میں دھنسے معاشرے میں سال میں ایک تہائی چھٹیاں کرنا ظلم ہے۔ پرائمری تک کے بچے واقعی پھولوں‘ نوخیز کلیوں اور کونپلوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کےلئے گرمیوں کی چھٹیاں لازم ہیں۔ باقی کو تعلیم اجاڑنے کے مترادف ہے۔ میڈیا میں سب سے کم 6چھٹیاں 2,2عیدین، ایک عید میلاد النبی اور ایک یومِ عاشورہ کو کی جاتی ہے۔دیگر ادارے اس کی تقلید کریں تو اچھا ہے۔
گذشتہ دنوں قیوم نظامی صاحب نے اپنے کالم میں جناب خلیل الرحمن رمدے کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ جاپان گئے تو ان کے عدالتی سسٹم کا جائزہ بھی لینا چاہا۔ ان کو اکثر کورٹ رومز خالی ملے۔ ایک آدھ میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔ (باقی عدالتوں کے جج شاید اسی طرح کے سائل کے انتظار میں ہوں گے جس طرح ہمارے ہاں کرسی میز اور ساتھ کھڑی موٹر سائیکل پر مشتمل چیمبر کے وکلا کلائنٹ کے انتظار میں ہوتے ہیں)۔ جسٹس رمدے صاحب کو بتایا گیا کہ مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ججوں کی چھٹیوں کی روایت سوا صدی پرانی ہے۔ اس وقت انگریز راج مضبوط تھا۔ مقدمات کی بھی صورتحال شاید وہ نہ ہو جو آج ہے۔ انگریز جج گرمی کی وجہ سے اپنے ملک لوٹ جاتے ہونگے۔ آج جو حالات اور صورتحال ہے ہمارے اوپر کسی بھی دور سے زیادہ قائداعظم کا فرمان کام کام اور صرف کام لاگو ہوتا ہے۔ آج اس روایت سے منہ موڑنے اور اسے توڑنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ سائل انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ جاپان کی طرح مقدمات یقیناً معاشرے کے صالح بننے سے ہی نہ ہونے کے برابر ہو سکتے ہیں۔ فاضل جج حضرات مقدمات کو اپنی محنت اور کاوش سے جاپان جیسی سطح پر لے آئیں تو پھر چھٹیاں ہی چھٹیاں ہیں۔ ویسے بھی مراعات، گھروں اور دفاتر میں بجلی کی نان سٹاپ آمد اور ائرکنڈیشنڈ ماحول، شدید گرمی میں بھی یورپ جیسا سماں پیدا کر دیتا ہے۔ کچھ جج حضرات اور اعلیٰ پائے کے وکلاءیورپ یا پرفضا مقام پر چھٹیاں گزارنے چلے جاتے ہوں گے۔ ایسے وکلا کی تعداد لاکھوں میں ہو گی جو چھٹیوں کا ایک ایک دن گن کر گزارتے ہیں اور ان وکلا سے کئی گنا زیادہ سائل مقدمات کی طوالت پر کڑھتے ہیں۔ چیمبر بردوش و بردو چرخ وکلاءروزانہ کی بنیاد پر روزی کو” کڑکّی اور پھاہی “لگاتے ہیں۔ انکی یہ چھٹیاں کیسی گزرتی ہیں، یہ وہی جانتے ہیں یا ان کے اہل خانہ۔گزشتہ سال 5 مارچ کو چیف جسٹس صاحب نے کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتوں میں 25 لاکھ مقدمات زیر التواءہیں‘ ان میں سے 10 فیصد سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں ،باقی ماتحت عدلیہ میں ہیں۔ اسکی وجہ ججوں کی کمی‘ پولیس کا عدم تعاون اور دیگر معاملات بھی ہو سکتے ہیں۔ یکم جون2009ءکو قومی جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کے بعد مقدمات تیزی سے نمٹانے کی کوششیں کی گئی تھیں‘ اسکے باوجود آج بھی زیر التواءمقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اکثر جج حضرات چھٹیوں کو اپنے اوپر جبر سمجھتے ہوں۔ جج صاحبان کا مقررہ اوقات کے دوران کام کرنا فرائض کی ”ادائی “ہے۔ مقدمات کو انجام تک پہنچانے کےلئے جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح رات گئے تک بیٹھے رہنا انسانیت کی خدمت اور مسیحائی ہے۔ اس میں ملک و قوم کی بھلائی اور عوام کی طرف سے ججوں کی پذیرائی ہے۔ لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہوں اور جج حضرات چھٹیاں منائیں، یقین جانئے یہ جگ ہنسائی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اگر 125سال پرانی روایت توڑنے میں متذبذب ہیں تو وکلاءاور ججوں سے رائے لے کر اس جبر کا خاتمہ فرما دیں۔


No comments:

Post a Comment