جمعرات ,19 جولائی ,2012
شہباز شریف کا علی بابا
”علی بابا چالیس چور“ یہ ایک عرب لکڑ ہارے اور چوروں و ڈاکوﺅں کے درمیان آنکھ مچولی پر مبنی کہانی ہے۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس کہانی کا بار بار،بار بار تذکرہ کرتے ہیں‘کبھی جوش و خروش سے کبھی لہک کر اور چہک کر ۔ان کے نشانے پرصدر آصف علی زرداری ‘ ان کے ساتھی اور ان کے انجام دیئے گئے کارہائے نمایاں ہوتے ہیں۔محفل اور مجلس جس طرح کی بھی ہو وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ” علی بابا اور چالیس چوروں کو نہیں چھوڑوں گا“۔آ ج کل خیمہ زنی مہم جاری ہے‘ پنکھا جھلتے ہوئے بھی علی بابا اور چالیس چوروں پر قہر بن کر ٹوٹتے ہیں۔کل نظریہ پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”ملک کو واپس اجالے میں لانے کے لئے اسلام آباد میں براجمان علی بابا اور چالیس چوروں کو بھگانا ہو گا“ میاں شہباز شریف جس انداز میں علی با با اور چالیس چوروں کا ذکر کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ علی بابا بھی چالیس چوروں کا ساتھی تھا بلکہ سرغنہ تھا۔میاں صاحب نے اپنی طرح کے شریف اور ڈا کوﺅ ں کو اپنی جان کا دشمن بنانےوالے علی بابا کو بھی ڈاکوﺅں کاساتھی بنا دیا ہے وہ زندہ ہوتا تو پٹیشن ضرور داخل کرتا۔
”علی بابا چالیس چور“ ۔یہ بچوں کی کہانی ہے جو آج بڑوں کے کام آ رہی اور بہت بڑوں پر آزمائی جا رہی ہے ۔ اس کہانی کا میاں صاحب کہاں تک درست انطباق کر رہے ہیں؟ ۔ اس کا جواب جاننے کے لئے کہانی پر سرسری سی نظر ڈال لیتے ہیں
ایک رات علی بابا دن بھر لکڑیاں کاٹ کر واپس اپنے گھر جا رہا تھا۔ چاند کی روشنی میں دیکھا کہ کچھ ڈاکو ایک پہاڑی کے سامنے رُکے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک اپنے گھوڑے سے اتر کر زور سے چِلاّ کر کہہ رہا ہے ک±ھل جا سِم سِم اسکے بعد علی بابا نے جو دیکھا اس سے وہ ہکّا بکّا رہ گیا۔پہاڑی میں سے ایک چٹان گڑ گڑاہٹ کے ساتھ ہٹ گئی اور ایک غار دکھائی دی ۔غار سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے چمک رہی تھی۔ ڈاکوﺅں نے اپنے گھوڑوں سے سامان اتار کر غار میں رکھا غار سے باہر نکلے اور کہابند ہو جا سِم سِم جس پر چٹان واپس اپنی جگہ پہنچ گئی ۔ علی بابا نے ڈاکوﺅں کے دور تک جانے کا انتظار کیا اورغار کے سامنے کھڑے ہوکر زور سے کہا ک±ھل جا سِم سِم...غار کا منہ کھلا اورعلی بابا اندر داخل ہوگیا ۔ اورعلی بابا نے ہیرے جواہرات اور سونے چاندی سے جلدی جلدی اپنی جیبیں بھر لیں اور غار کے دروازے کے سامنے چلاّیا کھل جا سم سم.... علی بابا جب گھر پہنچا تو اس کی اہلیہ ہیرے جواہرات دیکھ کر شاد باغ ہوگئی۔یہ خبر پڑوس میں علی بابا کے بھائی قاسم کو ملی تو علی بابا نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔اندھیرا ہوا تو قاسم دو گدھے ساتھ لے کر جنگل میں ڈاکوﺅں کے غار کی طرف چل پڑا۔ اس نے علی بابا کی بتائی ہوئی جگہ پر چٹان کے سامنے کھڑے ہو کر زور سے کہا ”کھل جا سم سم“ اور زبردست گ±ڑگ±ڑاہٹ کے بعد چٹان اپنی جگہ سے ہٹی اور قاسم اپنے گدھوں سمیت چمکتی دمکتی غار میں داخل ہو گیا اور بند ہو جا سم سم کہنے سے غار کا دروازہ بند ہو گیا... اس نے دونوں گدھوں پر سونا چاندی اور ہیرے جواہرات لادنا شروع کردیئے۔ جب اتنا مال جمع ہوگیا کہ اس سے زیادھ گدھوں پر لادنا ناممکن تھا، تو قاسم نے غار کے منہ پر کھڑے ہو کر زور سے کہا ”ک±ھل جا....“ آگے کے وہ الفاظ بھول چکا تھا ۔اتنے میں ڈاکو آ پہنچے اور قاسم کو ہلاک کرکے نعش باہر پھینک دی۔
اگلے دن گھر نہ پہنچنے پر علی بابا اس کی تلاش میں نکلا۔ علی بابا غار کی طرف گیا اور قریب ہی اسے قاسم کی لاش دکھائی دی۔
شام کو ڈاکو واپس غار پر آئے تو وہاں قاسم کی لاش نہ پائی تو انہیں تشویش ہوئی کہ کہیں کسی اور کو ہماری غار اور ہمارے خزانے کے بارے میں علم تو نہیں ہو گیاپھر ڈاکوﺅں نے زمین پر قدموں کے نشان دیکھے۔ انہی قدموں کو دیکھ کر ڈاکو علی بابا کے گھر تک پہنچ گئے ڈاکوﺅں کے سردار نے علی بابا کے دروازے پر ایک سفید دائرہ کا نشان لگا دیا تاکہ رات کے اندھیرے میں آکر علی بابا کا کام تمام کردیں۔اوپرکی کھڑکی سے چُھپ کر علی بابا کی نوکرانی اس کو دیکھ رہی تھی وہ رانا ثناءاللہ کی طرح بڑی سیانی تھی البتہ اس کی مونچھیں نہیں تھیں۔ڈاکو کے جانے کے بعد نوکرانی نے سارے محلے کے دروازوں پر وہی نشان لگادئیے جب رات کو ڈاکو آئے تو ہر دروازے پر سفید دائرہ دیکھا اورانہیں واپس جانا پڑا ۔دوسرے دن ڈاکوﺅں کا سردار ایک ترکیب سے ساتھ علی بابا کے گھر پہنچا اور کہا کہ وہ مسافر تاجر ہے ۔وہ زیتون کے تیل کے چالیس ڈبے تجارت کیلئے لے جارہا ہے۔ علی با با نے اسے اپنے گھرمیں رات گزارنے کی دعوت دے دی.اسی رات علی بابا کی نوکرانی کھانا بنا رہی تھی اورگھر میں تیل نہیں تھا تو اس نے سوچاکہ اس تاجر کے ایک ڈبے میں سے تھوڑا سا تیل نکال لے گی...لیکن جب اس نے ڈبے کا ڈھکن کھولا تو اندر ایک ڈاکو دبک کر تلوار لیے بیٹھا دیکھااس پر نوکرانی نے چپ چاپ پڑوس سے کچھ تیل مانگا اسے خوب گرم کیا اور تھوڑا تھوڑا ہر ڈبے میں انڈیل دیا جس سے تمام ڈاکو مر گئے(ذہن میں رہے کہ یہ بچوں کی کہانی ہے) اسی رات نوکرانی نے ڈاکوﺅں کے سر دار کو بھی نیند میں ہمیشہ کی نیند س±لا دیا۔
یوں علی بابا کے ہاتھوں ڈاکو اپنے انجام کو پہنچ گئے اور خزانہ ....البتہ اس سے یہ ہوا کہ پورے علاقے میں جہاں ڈاکوﺅں نے ” ات چکی“ ہوئی تھی۔ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ لوٹ مار کر رہے تھے اس عذاب سے لوگوں کی جان چھوٹ گئی۔ اس علاقے کے لوگوں کیلئے علی بابا تو ایک ہیرو تھا۔میاں صاحب اس کو بھی ڈاکوﺅں کا ساتھی قرار دے رہے ہیں۔
میاں صاحب کچھ عرصہ قبل تک بڑے سُر اور لے کے ساتھ بڑے جلسوں اور اجتماعات میں حبیب جالب کی نظم ....ع
صبح بے نور کو میں نہیں مانتا
پڑھا کرتے تھے۔ان کے لواحقین نے نیا فلسفہ ایجاد کیا کہ جو جالب کے افکار پر عمل نہیں کرتا اس کو حق نہیں کہ وہ ان کا کلام سرِ عام گاگا کر سنائے اس کے بعد سے میاں صاحب نے ہر جلسے میں ....ع
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
پڑھنا شروع کردیا۔
شوکت علی شاہ صاحب نہ جانے شاعر سے مخاصمت یا شہباز سے مخالفت پر اس شعر کو تکنیکی اعتبار سے غلط قرار دیتے ہیں کہ ظلم مذکر ہے،مذکر بچے نہیں جن سکتا ہے۔ برادرم اجمل نیازی بھی بڑا شاعر ہے اس سے پوچھ لیتے ہیں کہ ظلم کے بجائے کونسا لفظ استعمال ہوکہ تکنیکی خرابی دور ہوجائے۔
سردست میاں صاحب سے درخواست ہے کہ شعر جو بھی جس کا بھی اور جیسے بھی پڑھیں نو پرابلم! علی بابا کو معاف کردیں۔اس شریف آدمی کو ہیرو سے زیرو نہ بنائیں۔چالیس ڈاکوﺅں کے ساتھ جس طرح مرضی ہے نمٹیں۔ سردار علی بابا نہیں ہے!
کالم نگار | فضل حسین اعوان
No comments:
Post a Comment