منگل ، 10 جولائی ، 2012
سپلائی، معذرت معافی اور مک مکا؟
فضل حسین اعوان ـ
معافی اور معذرت میں فرق کو سب جانتے اور سمجھتے ہیں ”سوری“ سہو یا نادانستہ غلطی پر کہا جاتا ہے۔ جرم پر سزا ہوتی ہے، جرم کی نوعیت کے مطابق.... خون کا بدلہ خون، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ --- البتہ درگزر کیا جائے تو صلہ رحمی ہے درگزر تبھی اگر مجرم اپنے کئے پر شرمندہ ہو۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے معافی اور ڈرون حملوں کی بندش آخر میں دو مطالبے رہ گئے تھے۔ اصولی طور پر معانی کیلئے مجرم پارٹی کو ہاتھ جوڑنے چاہئیں۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوا ہم بار بار معافی کا تقاضا کرتے رہے اور اتنے مجبور ہوئے کہ معذرت کو معافی کے مقام اولیٰ کا درجہ دے دیا۔ ڈرون سپلائی کی بحالی کے بعد بھی پاکستان کی سرحدوں اور خود مختاری و سالمیت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ فوج شروع دن سے کہہ رہی ہے کہ حملہ دانستہ کیا گیا جس میں 24 فوجی شہید ہوئے۔ اس پر ہلیری کی سوری کام دکھا گئی جو وہ سر محفل انگڑائی و جماہی لینے اور کھنکارنے پر کہہ دیتی ہے۔ یہ سوری ہمارے 24فوجیوں کی شہادت کا بدلہ و دیت ثابت ہوئی۔ کہا جاتا تھا امریکہ کے ساتھ معاملات برابری کی سطح پر طے کریں گے، کونسی اور کیسی برابری؟ محمود و ایاز کے ایک ہی صف میں کھڑے ہونے سے دونوں کا سٹیٹس نہیں بدلتا۔ ایک ہی میز کے گرد ایک جیسی کرسیوں پر بیٹھ جانے کو برابری قرار دیا جا سکتا ہے؟ ایسی برابری میں ہمارے جیسے ممالک کی بربادی ہی بربادی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نیٹو سپلائی کی بحالی کے لئے حالات کے شکنجے میں آئے ہوئے فریق نے کافی کام کیا۔ 18ویں ترمیم کے بعد ہر پارلیمنٹرین کو رام کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پارٹی قائد کو ”جام“ کر لینا کافی ہے۔ دستی کی استعفے جیسی دھمکی کے بعدپستی اور فیصل صالح کا جوش و خروش سے راجہ کو ووٹ دینے سے انکار اور پھر یگانگت کا اظہار 18ویں ترمیم کے پارٹی سربراہ کو تفویض کئے گئے اختیارات کا ساخشانہ ہے پارٹی قائد کی ایک جنبش ابرو پر رکنیت سگریٹ کے کش کی طرح دھواں بن کر اڑ جاتی ہے۔
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کی دو درجن سفارشات کم ہوتی ہوتی دو اڑھائی، معافی، ڈرون حملوں کی بندش اور 5 ہزار فی کنٹینر فیس پر آ گئی تھیں۔ مسلم لیگ ن نے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی رکھا تھا یہ تقاضے یہ مطالبے کیا ہوئے اور کیسے ہوئے؟ پارلیمنٹ کے اندر کے کردار، پارلیمنٹ کے باہر کے فنکار، سیاسی و غیر سیاسی صداکار، ریاستی و غیر ریاستی اداکار ایک ہوئے تو سپلائی بحال ہو گئی۔ عافیہ کی رہائی کی شرط واپس لی، پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو یس کہا، اب ن لیگ کس منہ سے کہتی ہے پارلیمنٹ میں نیٹو سپلائی کی بحالی کی مخالفت کریں گے۔ آج کل بڑے میاں صاحب کے بیانات گیلانی کے بیانات کا پَرتو نظر آتے ہیں۔ کل میاں صاحب نے کہا تھا دوہری شہریت کا قانون دو تین افراد کے لئے لایا جا رہا ہے آج کہہ دیا دوہری شہریت کےخلاف نہیں۔ حکومت بل کی منظوری میں جلد بازی نہ کرے۔ کل کس کو خوش کرنے کیلئے کہا تھا آج کس کی طبع نازک پر پھول و مشک برسار ہے ہیں؟
تھوڑا پیچھے چلے جائیے، سونامی خان اور دفاع پاکستان کونسل کی نامی گرامی خان کہتے تھے نیٹو سپلائی بحال نہیں ہونے دیں گے۔ سڑکوں پر لیٹ کر کنٹینر روکیں گے۔ سپلائی بحال ہوئی تو جلسے، جلوس ہوئے۔ لانگ مارچ اسی طرح رواں دواں ہے جیسے کنٹینر سوئے کابل۔ حکمران تو پہلے دن سے ہی سپلائی کی بحالی پر تیار تھے بحال اس لئے نہ کی کہ عوامی ردعمل عروج پر تھا۔ کہا جاتا ہے سات آٹھ ماہ اس رد عمل پر قابو پانے کے لئے ”کام کیا“ گیا۔ کیا حالات ایسا کئے جانے کی گواہی نہیں دیتے؟ امریکی حکام کا یہاں آنا ایک معمول ہے۔ خان اور شیخ کا سپلائی روکنے کے بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود امریکہ جانا معمول نہیں اور پھر کنٹینرز کو بزور روکنے سے گریز سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ حضرات گرامی ڈی چوک کو تحریر سکوائر بنانے کا اعلان کر رہے ہیں کیا کابل جانے والے ٹرک ڈی چوک سے گزریں گے؟ دعویداروں نے افغان بارڈر تک ہر موڑ کو تحریر چوک بنایا ہوتا تو پاکستان سے کوئی بھی ٹرک ہم پاکستانیوں کی موت کا سامان لیکر افغانستان میں داخل نہ ہوتا۔ صاحبان جبہ و دستار اور ان کے چند پرستار، دعا گو ہیں کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے۔ فرینڈلی گرفتاریوں سے ان کو ایک محفوظ راستہ مل جائے گا۔ آخر یہ احتجاج کب تک جاری رہے گا دس دن، بیس دن، مہینہ، زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ مہینہ‘ پھر ٹھنڈے کمروں میں پریس کانفرنسیں اور بات ختم۔ دفاع پاکستان کونسل سے قوم کی بڑی توقعات ہیں اس میں شامل متعدد شخصیات انتہائی محترم ہیں وہ کوئی مک مکا کر لیں گی، سوچا تک نہیں جا سکتا لیکن ہر کوئی انمول نہیں‘ جن پر کام ہوا۔ ان کے ہاتھوں ایمان افروز لانگ مارج کو یرغمال نہ بننے دیں۔ اسلام آباد میں دھرنے کے بعد سپلائی کے روٹ بند کریں جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ سپلائی سب سے ”مک مکا “کے بعد بحال ہوئی۔
No comments:
Post a Comment