About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, July 12, 2012

”تاپیب “


جمعرات ، 12 جولائی ، 2012

”تاپیب “
فضل حسین اعوان ـ
پاکستان اور بنگلہ دیش کا ایک اور دُکھ سانجھا نکل آیا۔ اس کو بھی گیس کی اسی طرح قلت کا سامنا ہے جس طرح پاکستان کو۔ ہم تو گیس کی کمی کے خاتمے کا کوئی قابلِ عمل حل نہیں نکال سکے بنگلہ دیش کو اس کے لئے ایک ترکیب سوجھی ہے وہ اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے جو کسی اور کو وارے میں نہ ہو امریکہ کے وارے میں ضرور ہے، اس سے کسی کے بھی وارے نیارے ہونے کا کوئی امکان نہیں اس کے باوجود بھی بُزِا خفش کی طرح سر ہلائے چلے جا رہے ہیں۔ 
پاکستان کے پاس گیس کی کمی دور کرنے کا بہترین اور قابلِ عمل طریقہ ایران سے گیس کی درآمد ہے جس کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ ایران کی طرف سے لائن تعمیر ہو چکی ہے۔ پاکستان امریکہ کی پابندیوں کی دھمکیوں کے باعث معاہدے کو عملی شکل دینے سے متذبذب ہے۔ کیا امریکہ نے اپنے مفاد کے فیصلے کبھی پاکستان سے پوچھ کر کئے ہیں؟ پابندی کی بات صرف پاکستان کے لئے ہی کیوں؟ آدھی دنیا بھارت اور چین سمیت ایران سے تیل درآمد کر رہی ہے، وہ پابندیوں اور ایران سے درآمدات کے لئے آزاد ہیں۔ ایران نے تو پاکستان کے اندر تک گیس پائپ لائن بچھانے کی پیشکش کر دی ہے لیکن پابندیوں کی دھمکی آڑے آ رہی ہے ع 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 
کیمرون منٹر کا بیان ملاحظہ فرما یئے‘ ”عمران خان اور نواز شریف نے امریکہ کے حامی ہونے کا یقین دلایا ہے۔“ گویا اسلام آباد کو راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے۔ آج اسلام آباد میں بیٹھنے والے بھی سوئے واشنگٹن گئے، نہال ہو کر آئے اور کمال کر رہے ہیں۔ اب یہی ان کے زوال اور قوم کے ملال کا سبب ہے۔ ایران سے سستی گیس بجلی اور تیل لینے سے انکار اسی کمال کی نشانی ہے۔ 
امریکہ سرکار کا زور ہے کہ اپنے پڑوس سے نہیں، پاکستان 6 ہزار کلو میٹر دور، ترکمانستان سے گیس برآمد کرے۔ اس معاہدے میں پاکستان کے ساتھ افغانستان اور بھارت کو پرویا گیا ہے۔ اس منصوبے کو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے ناموں کی مناسب سے ”تاپی“ کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ کو اس معاہدے سے دلچسپی اس لئے ہے کہ متعدد وسط ایشیائی ممالک کے گیس کنو ¶ں کے ٹھیکے سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی کی کمپنی کے پاس ہیں۔ 
اب بنگلہ دیش کو بھی تاپی کا تاپ چڑھ گیا ہے اس نے بھی اس منصوبے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک بھی اس منصوبے میں دلچسپی لے رہا ہے جس نے معاملات آگے بڑھائے ہیں۔ ترکمانستان حکومت تو ایسی درخواستوں کی منتظر اور ڈک چینی کی گیس کمپنی اپنا بزنس بڑھنے پر ترکمانستان سے بھی زیادہ خوش ہے۔ بنگلہ دیش آج معاہدے میں شامل ہوتا ہے‘ معاہدے کی تکمیل میں اتنی مدت لگے گی کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے وزیر کے پوتے ہی شاید اس گیس سے استفادہ کر سکیں گے۔ گیس پائپ لائن افغانستان، پاکستان اور بھارت سے گزر کر بنگلہ دیش پہنچے گی۔ تاپی معاہدہ جو بنگلہ دیش کے اوکھلی میں سر دینے سے تاپیب ہو جائے گا اس پر آج عمل شروع ہو تو پاکستان میں سات سال میں پائپ لائن پایہ تکمل کو پہنچے گی وہ بھی اگر افغانستان میں موجود پاکستان مخالف شرپسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ رہے۔ پھر پاکستان اور بھارت سے گزر کر بنگلہ دیش جانے میں کتنی مدت درکار ہو گی؟ بھارت کو بھی اس لائن سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف پاکستان ایران گیس معاہدہ ختم کرانا چاہتا ہے جس میں وہ کچھ عرصہ پہلے تک خود بھی شامل تھا۔ اوّل تو تاپی یا تاپیب معاہدہ قابلِ عمل ہی نہیں، یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھٹے اور پھوٹے گی۔ اگر معاہدہ تکمیل کے مراحل طے بھی کر لیتا ہے تو مذکورہ ممالک کی گردن ڈک چینی کی امریکی کمپنی یعنی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جو کسی بھی وقت اس پر دبا ¶ بڑھا سکتا ہے۔ ایسے منصوبے میں شامل ہونے کی ضرورت ہی کیا جس کی شہ رگ اس کے ہاتھ میں ہو جس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ ویسے بھی ہماری قومی غیرت اور ملی انا کا تقاضا ہے کہ کشمیر جیسے تنازعات کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ کسی بھی منصوبے میں شامل نہ ہوں خواہ وہ کتنا ہی پاکستان کے مفاد میں کیوں نہ ہو۔

No comments:

Post a Comment