About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, July 8, 2012

خود بدلتے نہیں.......


اتوار ، 08 جولائی ، 2012

خود بدلتے نہیں
فضل حسین اعوان ـ 
بھارتی نژاد خلا نورد سنیتا ولیمز ان امریکی سائنسدانو ں کی ٹیم کا حصہ تھیں جو 2007 میں 195دن بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر مقیم رہی۔یہ ٹیم اٹلانٹس کے ذریعے اسٹیشن پر وقوع پذیر ہونیوالی خرابیاں دور کرنے گئی تھی۔ خلائی سٹیشن سے واپسی پر سنیتا کو جن مظاہرِ عجائب کا مشاہدہ ہوا وہ اس کی زبانی سنیئے۔ ”جب میں نے چاند پر پہنچ کر زمین کی طرف دیکھا تو مجھے زمین پر اندھیرا نظر آیا لیکن دو جگہیں ایسی تھیں جہاں سے روشنی نظر آ رہی تھی۔ ٹیلی سکوپ سے دیکھا تو وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تھے۔ دوسرا مشاہدہ یہ ہواکہ اس مقام پر ہر فریکوئنسی فیل ہورہی تھی لیکن پھر بھی اذان کی آواز واضح آرہی تھی“۔ ان مشاہدات کے بعد سنیتا نے دین حنیف قبول کرلیا تھا۔سنیتا کے اسلام قبول کرنے پر غیر مسلم متعصب حلقوں نے تو جزبز ہونا ہی تھا کچھ ہمارے اپنے بھی اپنی پلمبرانہ حکمت اور جاہلانہ دانش کا اظہار فرما رہے ہیں۔ وہ اس واقعہ کو بے بنیاد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ صرف دورِ حاضر کے بزغمِ خویش محققین کے ہی دماغ میں کیڑا نہیں۔ یہ بیماری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ نبی کریم کی شان تو یہی ہے ....ع
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر 
حضور کا سایہ نہیں تھا۔ ایک بدلی آپ کے سر پر سایہ فگن رہتی تھی۔ کنکریوں نے آپ کی مٹھی میں کلمہ پڑھا لیکن دیکھنے والے پھر بھی ایمان نہ لائے جن کو اللہ نے ایمان کی دولت سے نوازنا تھا وہ معجزوں کے منتظر اور متمنی نہیں تھے۔ منکرین نبوت اس سب کو سحرکا نتیجہ قرار دیتے تھے۔
معجزے کا تو مطلب ہی ایسے واقعہ کا ظہور ہوتا ہے جو ماورائے عقل ہو۔ اس کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے مخالفین، اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن خدائے بزرگ برتر خود ان کے ذریعے ہی اسلام اور معجزات کی حقانیت ثابت کر دیتا ہے۔ سورة قمر میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ امریکہ نے چاند کے سفر کیلئے 5کھرب ڈالر خرچ کئے واپسی پر خلا نوردوں نے تصویریں جاری کرتے ہوئے اعتراف اور اہل مغرب کیلئے انکشاف کیا کہ چاند کبھی دو ٹکڑے ہوکر جڑا تھا۔آج الیکٹرانک سگنل کھربوں میل دور تک آواز اور تصویر لے جاتے ہیں۔ واقعہ معراج النبی کو اسی تناظر میں لیا جائے تو یہ پھر عقل میں آنیوالا واقعہ بھی بن جاتا ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود ہمارے کچھ اکابرین جن کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ یوں سمجھ لیجئے ایک کروڑ میں ایک۔وہ جب شق القمر جیسے معجزات میں شکوک شہبات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اسلام دشمنوں کو دین حنیف پر انگلی اٹھانے کا موقع توملے گا ہی، ساتھ معمولی پڑھے لکھے مسلمان بھی ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوسکتے ہیں حالانکہ کروڑ وںعلماءکے ایقان افروز دلائل کے سامنے چند ایک کی خود ساختہ توجیحات کی کوئی اہمیت نہیں۔ آخر ان مخرب الذہن افراد کو ایسے معاملات میں سخن آرائی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے کہ شعائر اسلام کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پرپرکھنے کی کوشش کریں ان ابنِ ابیوں سے نہ صرف بچنے بلکہ ان کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مدینہ سے 35 کلو میٹر دور وادی جن میں آج بھی جنوں کا ڈیرہ اور بسیرا ہے یہ مدینہ النبی کی وجہ سے ہے یا کوئی وجہ ہوسکتی ہے۔اس وادی میں ڈھلوان سے اوپر چڑھتی ہوئی گاڑی کا انجن بند کردیاجائے تو بھی گاڑی اوپر چڑھتی چلی جاتی ہے۔اس کو آج کے اجہل محققین کسی مقناطیسی کشش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن رات کو وہاں جن کسی انسان کو داخل ہی نہیں ہونے دیتے اور وہاں سے جو عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں اس کی کوئی وضاحت یہ محققین پیش نہیں کر سکے۔ سوڈان کے معروف عالمِ دین صدیقین ایک مرتبہ دو دیگر علما کے ساتھ اور دوسری مرتبہ رات کے وقت اکیلے ہی اس وادی میں گئے ۔اس مرتبہ وہ مکمل روحانی علوم کی تیاری کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔ ایک مقام پر انہیں ایک اونٹ سوار اپنی جانب آتا ہوا محسوس ہوا۔ انہوں نے اس اونٹ سوار کو اپنے ساتھ گاڑی میں موجود قہوہ پینے کی دعوت دی۔ اس کے جواب میں اونٹ سوار کے بجائے وہ اونٹنی انسانی آواز میں گویا ہوئی کہ وہ انسانوں والے کھانوں سے اجتناب برتتے ہیں، اونٹنی کے اس طرح انسانی آواز میں گویا ہونے پر جب انہوں نے اس شتربان کی طرف دیکھا تو اس نے انہیں بتایا کہ یہ اونٹنی دراصل اس کی بیٹی ہے جو بڑھاپے میں اپنے باپ کو لادے پھرتی ہے ۔
جس طرح کی شیطانی ذہانت، اسلام کی حقانیت میں شک و شبہات پھیلانے کیلئے استعمال کی جاتی رہی ہے ایسی ہی تخریبی دانش پاکستان کو سیکولر ریاست ثابت کرنے کیلئے بروئے کار لائی جارہی ہے۔ قیام پاکستان کو اتفاق اور نہرو، گاندھی کا کارنامہ قرار دینے والوں کی کمی نہیں۔ ایک طبقہ یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کا رمضان المبار ک میں معرض وجود میں آجانا بھی ایک اتفاق ہے لیکن پاکستان کو مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی ریاست قرار دینے والوں کا ایمان ہے کہ خدائے بزرگ برتر نے قیام پاکستان کیلئے ہزار راتوں سے برتر رات اور دنوں کا سردار جمعہ اور پھر جمعتہ الوداع کا انتخاب، اپنی رحمت و برکت کیلئے کیا تھا۔کافی عرصہ سے لوگوں کے اذہان میں اس حوالے سے شکوک پیدا کئے جا رہے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ فلاں دانشور، فلاں محقق فلاں عالم نے اپنی کتاب میں، اپنے خط میں یا اپنے مضمون میں یہ لکھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان 26 رمضان نہیں بلکہ 29,28 رمضان کو معرضِ وجود میں آیا۔ نوائے وقت کے ریکارڈ روم میں نوائے وقت کے پرچوں کی فائلیں موجود ہیں ۔ میں نے اگست1947 کی فائل منگوائی۔ نوائے وقت کی پیشانی پرشروع سے ہجری کے ساتھ عیسوی مہینے کی تاریخ اور دن درج ہوتا آ رہا ہے۔ نوائے وقت کی پیشانی دیکھنے اور پڑھنے پر واضح ہوگیا کہ جس رات کو قیام پاکستان کی خوشخبری سنائی گئی وہ ستائیسویں کی شب اور جمعہ کی رات تھی۔ 14اگست 1947 کو 26 رمضان المبارک سن ،1366 ہجری تھا۔ پاکستان سے کدورت اور کرودھ رکھنے والے اپنی تاریخ کو درست کریں ....
خود بدلتے نہیں ،قرآں کو بدل دیتے ہیں !
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق


No comments:

Post a Comment