About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, July 16, 2012

برما میں مسلمانوں پر قیامت آخری قسط


 منگل ، 17 جولائی ، 2012

برما میں مسلمانوں پر قیامت ( آخری قسط)
فضل حسین اعوان ـ 8 گھنٹے 57 منٹ پہلے شائع کی گئی
آج کی طرح برمی مسلمانوں پر 1962ءمیں بھی عرصہ حیات تنگ ہوا تھا۔ جنرل نی ون کے دور میں مسلمانوں پر آزمائش کی گھڑی آئی تھی۔ فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا‘ انہیں جانوروں کا قاتل قرار دیا گیا اور معاشرے میں ان کیلئے ”کالا“ کا لفظ بول کر ان کی معاشرتی تذلیل و تحقیر کی جانے لگی۔ طالبان دور میں افغانستان کے اندر ”بامیان“ کے مجسموں کے معاملے کے بعد برما میں بدھوں کے بلوے نے مسلمانوں کی مساجد اور کئی بستیاں نذر آتش کیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے رکھا۔ 15 مئی 2001ءکو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار کیں‘ چار سو سے زائد گھروں کو آگ لگا دی اور دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں سے بیس افراد وہ تھے جو مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے۔ بدھوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کر دیا جائے جسے حکومت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مان لیا‘ متعدد مساجد زمیں بوس کر دی گئیں اور بعض کو مقفل کر دیا گیا۔ مسلمان اپنے گھروں پر عبادت کیلئے مجبور کئے گئے اور بعض نے ہجرت کر لی۔ اب تک لاکھوں برمی مسلمان ہجرت کر کے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحدوں پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 2009ءمیں تھائی لینڈ کی فوج نے برمی مسلمان مہاجرین کو بے دردی سے مارا پیٹا اور پھر انہیں کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں دھکیل دیا جہاں بے رحم موجیں ان مسلمانوں کو نگل گئیں اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا خاموش رہی۔ اس دوران حکومت برما اور بین الاقوامی اداروں کے بہت سے وعدے‘ مذاکرات‘ بیانات‘ رپورٹس‘ قراردادیں اور سرویز مگرمچھ کے آنسو وں سے زیادہ ثابت نہ ہوئے۔“
برما کے مسلمانوں پر نئے سرے سے عذاب ایک لڑکی کے قبول اسلام کے بعد ٹوٹا۔ بدھ لڑکی کے قبول اسلام پر اشتعال میں آئے اور اسے 28 مئی 2012ءکو قتل کر کے الزام بھی الٹا مسلمانوں پر اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل کا دھر دیا۔ 3 جون کو ایک بس روک کر تبلیغی جماعت کے دس افراد کو قتل کر کے ان کے سر مونڈے‘ شکلوں کو بے شناخت کیا اور مشہور کر دیا کہ مسلمانوں نے بدھ رہنما اور اس کے شاگردوں کو قتل کیا ہے۔ اس افواہ کے وبا کی طرح پھیلنے کے بعد برما میں کوئی مسلمان محفوظ نہ رہا۔ ان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فوج اور پولیس بھی اس جبر میں شدت پسندوں‘ قاتلوں‘ جلادوں‘ انسانیت کے دشمنوں اور شیطان کے بھائیوں کے ساتھ شامل ہو گئی۔ گویا مسلمانوں کی ایذارسانی اور قتل و غارت گری کو مذہبی فریضہ سمجھ لیا گیا۔ 10 جون کو فوج نے مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ کیا اور یہ مظالم عالمی برادری کی نظروں سے اوجھل رکھنے کیلئے میڈیا کو علاقہ بدر کر دیا گیا۔ ہزاروں بستیاں تاراج اور لاکھوں جھونپڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ برمی مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی اس قیامت میں اب تک 20 ہزار اپنی جان سے گزر گئے۔ ہزاروں مسلمان اپنی جانیں بچانے کیلئے پناہ کی خاطر ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش کی طرف بھاگے تو حسینہ واجد کی بھارت کی طفیلی حکومت نے واپس ان کو مقتل گاہ میں دھکیل دیا۔ اکثر واپسی پر تاک میں بیٹھے گماشتوں کی بندوقوں کا نشانہ بن گئے۔ برما بنگلہ دیش سرحد پر آباد مسلمانوں کو برما بنگلہ دیشی اور اور بنگلہ دیش برمی قرار دے کر ان کو انسانی حقوق دینے پر تیار نہیں۔
اقوام متحدہ تو ان اقوام کی لونڈی ہے جو مسلمانوں کے کشت و خون میں ملوث ہیں۔ اس سے گلہ کیسا؟ مغرب کی اسلام دشمنی مسلمہ ہے‘ اس سے شکوہ کیا؟ او آئی سی آخر کیوں سوئی ہوئی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ آج میڈیا بڑا آزاد ہے۔ غیر جانبدار ہے‘ دنیا کے کونے کونے سے پل پل کی خبر نکالتا ہے لیکن برما کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لینے اور ان کے سر پر موت کی لٹکتی تلوار اور ان کے سینے پر تانی بندوق اور پیٹ کی طرف بڑھنے والے خنجر و تیغ کو ہٹانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ خصوصی طور پر مسلم اور سب سے بڑھ کر پاکستانی میڈیا کی بے حسی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ کیا او آئی سی‘ اسلامی ممالک انفرادی اور میڈیا اجتماعی طور پر برما میں آخری مسلمان کے بھی ذبح ہونے اور آگ میں جلائے جانے کا منتظر ہے؟ راکھائن کے مکین جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی طرح اپنے لئے آزاد ریاست کے قیام کی بات نہیں کرتے وہ تو صرف زندہ رہنے کا حق مانگتے ہیں۔ عام انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا‘ اس سے کہیں کم تر جتنا مغرب جانوروں کو حق دیتا ہے۔ ان بے بس و بے کس مسلمانوں کی آواز تو دبائی جا سکتی ہے لیکن مسلمان ممالک کے غیرت مند عوام کے جذبات کا گلا دبانا کسی کے بس میں نہیں۔ سارے بدھ مت شاید دہشت گرد نہ ہوں لیکن جو ہیں وہ یاد رکھیں۔ جہاد اور جہادیوں کیلئے جغرافیائی سرحدیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جہادی برما میں داخل ہوئے تو مسلمانوں کو ان کے حقوق دلائے بنا واپس نہ لوٹیں گے۔

No comments:

Post a Comment