منگل ,24 جولائی ,2012
”ایلی کوہن“
24 جولائی 2012 0
یہ دمشق کے شہدا چوک کی 18مئی1965ءکی 19 مئی میں داخل ہوتی ہوئی رات ہے۔ چوک کا کونہ کونہ روشنیوں سے نہایا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے۔ دنیا کے جس صحافی نے بھی یہ منظر دیکھنے کی خواہش کی‘ اسے اجازت دے دی گئی، چوک کے درمیان کی تھوڑی سی جگہ خالی ہے۔ ہجوم کی آنکھیں اسی جگہ پر مرکوز ہےں۔ منظر کشی کےلئے کیمرے فٹ کئے جا چکے ہیں۔ ارد گرد عمارتوں پر مسلح کمانڈوز نے پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ شام کی فضائیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ہجوم میں مال دار خواتین نے ہیرے جواہرات کے زیورات اور فر کے کوٹ پہن رکھے ہیں۔ رات ڈھلی ایک بجا، دو پھر تین۔ آخر کار وہ لمحہ آ گیا جس کا دل کی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا۔ 3بجکر 35 منٹ پر اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کو چوک کے وسط میں بنائے گئے عارضی پھانسی گھاٹ پر لا کر پھندا کسا گیا اور آناً فاناً جلاد نے اس کا قصہ تمام کر ڈالا۔
ایلی کوہن نے ایک بزنس مین کی حیثیت سے شام کے تجارتی حلقوں، حساس اداروں اور ایوان صدر تک رسائی حاصل کی ہوئی تھی۔ اسکے صدر کی کابینہ اور جرنیلوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ اسکی وزارت دفاع کے دفاتر کے عین سامنے رہائش تھی۔ اپنے مقاصد کے حصول کےلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتا تھا۔ صدر امین الحافظ کے وہ اتنا قریب تھا کہ صدر نے اسے وزیر دفاع بنانے کی پیشکش کی جسے وہ ٹال گیا صدر اس کی حب الوطنی، اہلیت اور قابلیت سے اس قدر متاثر تھا کہ اسے اپنا جان نشین بنانے پر بھی غور کیا۔ایلی کوہن کی جاسوسی کے باعث اسرائیل نے محض 6دن میں شام کو شکست سے دو چار کر دیا۔ پھر جب پکڑا گیا تو صدر امین الحافظ نے دنیا کا ہر دباﺅ اور اسرائیل کی اس ایک جاسوس کے بدلے شام اور فلسطین کے جاسوسوں سمیت تمام قیدی رہا کرنے کی پیشکش مسترد کر دی۔ آج مجھے ایلی کوہن کا یہ واقعہ اپنے وزیر دفاع جناب نوید قمر کا یہ بیان پڑھ کر رہ رہ کے یاد آ رہا ہے کہ ڈرون حملوں کے باعث دنیا سے روابط ختم نہیں کر سکتے۔
آج دنیا یقینا گلوبل ویلج بن چکی ہے جتنی ضرورت ہمیں دنیا کی ہے اتنی ہی بلکہ مخصوص حالات اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث یاشاید اس سے بھی بڑھ کر دنیا کو پاکستان کی ہے۔ڈرون حملوں میں تین ہزار کے لگ بھگ پاکستانی معصوم بچوں اور گھریلو خواتین سمیت مارے گئے۔ خود امریکی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں مطلوبہ افراد کی تعداد اڑھائی سے تین فیصد ہے۔ باقی 97 فیصد بے گناہ تھے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا، اس کو دیت کا ڈرامہ رچا کر رہا کر دیا گیا۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی کوئی داد فریاد اور دیت نہیں۔ اب وزیر دفاع فرماتے ہیں کہ ڈرون حملوں کے باعث دنیا سے تعلقات ختم نہیں کر سکتے۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران برطانیہ کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ پاکستان 48ممالک کی مخالفت مول نہیں لے سکتا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی نے بھی اسی بیان کا اعادہ کر دیا تھا۔ سلالہ حملوں کے چند روز بعد اس وقت کے وزیر دفاع احمد مختار نے کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے معافی مانگنے تک نیٹو سپلائی بحال نہیں ہو گی اور پھر پوری دنیا نے پارلیمنٹ کو نظر انداز اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو سر بازار رسوا و خوار ہوتے دیکھا اور سپلائی بحال ہو گئی یقیناً یہ سپلائی پاکستان کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام پارٹیوں کے اتفاق رائے سے بحال ہوئی۔ البتہ جسے قوم کہتے ہیں اس کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا۔
ایک نیٹو سپلائی پر ہی موقوف نہیں‘ لگتا ہے کہ ایلی کوہن جیسا کوئی شخص دیگر معاملات بھی اپنی مرضی سے چلا رہا ہے۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ دشمنی کی وجہ تنازع کشمیر ہے جس پر تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ تنازع اپنی جگہ پر بدستور اور ہنوز موجود ہے۔ اسکے باوجود دشمن کے ساتھ تجارت، تعلقات، دوستی اور اب اس کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی تڑپ، کیا کسی ایلی کوہن کے کردار کے بغیر ممکن ہے؟ پاک فوج کی طرف سے جن 96 امریکی ٹرینرز کو ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر ملک بدر کیا گیا ان کی واپسی کی تیاری ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال یمن میں ڈرون حملوں میں تین افراد کی ہلاکت پر ایک یمنی شہری نصیرالاولاتی نے امریکی وزیر دفاع پینٹا کےخلاف قتل کا مقدمہ درج کروایا، اس کا موقف ہے کہ یمن اور امریکہ کے درمیان جنگ نہیں ہو رہی، پھر ڈرون حملے کیوں؟ پاکستانی تو تین ہزار ایسے حملوں میں مارے گئے۔ مقدمات کا اندراج دور کی بات کبھی سنجیدگی سے احتجاج ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا کرنے میں مانع یا رکاوٹ کون ہے؟ کوئی ایلی کوہن، جس نے نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں؟ بعض اوقات تو حکومتی شخصیات کے بیانات اعلانات اور اقدامات سے عندیہ ملتاہے کہ ہر تیسرا شخص خود ایلی کوہن ہے۔ اب لگتا ہے حکمرانوں کی دم پر کسی طرف سے پاﺅں رکھ دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم راجہ کی تڑپ دیکھنے لائق ہے کل فرمایا تھا جمہوریت کو خطرہ ہوا تو تمام سیاسی قیادت ایک ہو گی۔ آج گویا ہوئے آئین میں واضح ہے ریاستی امور منتخب نمائندے چلائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی غیر جمہوری قوت ایکشن میں آ چکی ہے۔ آج عوام مہنگائی بیروزگاری، بجلی و گیس کی قلت، لاقانونیت، کرپشن، سفارش اور اقربا پروری جیسے اقدامات پر پریشان، برہم اور مشتعل ہیں۔ حکومتوں کا کام عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے تکلیف دینا نہیں۔ آخر جمہوری حکومت کس کے اکسانے پر عوام پر جبر کر رہی ہے۔ کیا اسکے پیچھے واقعی کوئی ایلی کوہن ہے؟ حکمرانوں کو سکھ چین چاہیے تو اپنی صفوں میں موجود ایلی کوہن کردار کے لوگوں کو ہجوم کی موجودگی میں چوراہے پر لٹکا دےں، جس طرح امین الحافظ نے کیا تھا تو یقین کیجئے جمہوریت محفوظ، ملک اور ملکی سرحدیں محفوظ ‘ عوام خوش اور خوشحال اور دم پر آیا ہوا پاﺅں بھی اٹھ جائیگا۔
کالم نگار | فضل حسین اعوان
No comments:
Post a Comment