منگل ، 10 مئی ، 2011
مہنگائی .... اور ملازمین میں مایوسی
فضل حسین اعوان
بجٹ کی آمد آمد ہے، بجٹ سے قبل ٹیکسوں کے طومار اور مہنگائی کی یلغار کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔ گو گزشتہ ماہ حکومت نے 52 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر اور کچھ پرانے بڑھا کر بجٹ سے قبل بجٹ کا ارمان پورا کرلیا لیکن اصل بجٹ رواں ماہ کے آخر میں پیش کرنا ہے جس سے بھی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تمام تر خدشات اور تفکرات کے باوجود تنخواہ دار طبقے کو بجٹ میں تنخواہیں بڑھنے کی آس ہوتی ہے۔ حکومت جیسی بھی ہو، بحرانوں میں گھری یا خزانے بھری، ممکنہ حد تک ملازمین کی اشک شوئی کرتی ہے لیکن آج تنخواہ دار طبقہ حکومت کی طرف سے یہ بتانے پر مایوس ہے کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے کی امید نہ رکھی جائے۔ملازمین تنخواہوں میں شوقیہ اضافہ نہیں چاہتے۔ تنخواہوں میں جو دس پندرہ فیصد اضافہ ہوتا ہے، یہ کایا پلٹ نہیں، پورا سال حکومت ضمنی بجٹوں، تیل کی قیمت میں اضافے، بجلی و گیس کی قلت کے باوجود انکے بل بڑھانے سے عام آدمی کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے۔ تنخواہوں میں اضافے سے یہ عدم توازن مکمل نہ سہی کسی حد تک متوازن ہوجاتا ہے۔جنوری 2010ءمیں پٹرول کی قیمت 65 روپے تھی۔ آج 88 روپے فی لٹر ہے۔ اگر مالی سال کے حوالے سے بات کریں تو گزشتہ سال جولائی میں قیمت 67 روپے تھی۔ اندازہ کیجئے تیل کی قیمتوں میں تفاوت کا، ہمارے ہاں مہنگائی کا دارومدار عموماً تیل یا بجلی کے نرخوں پر ہوتا ہے۔ دونوں میں متواتر اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ گزشتہ سال تو کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ پھر مہنگائی بھی اسی حساب سے بڑھی۔ پی آئی اے، ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے میں بے مہار اضافہ کردیا گیا۔ پرائیویٹ کیا، سرکاری تعلیمی اداروں نے بھی فیسیں بڑھا دیں، بجلی اور گیس کی قلت کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہوگئے۔ چھوٹے موٹے کاروبار ٹھپ ہیں۔ ایسے میں تو حکومت کو چاہئے کہ عام آدمی کو مہنگائی کے تناسب سے نہ سہی کچھ نہ کچھ ریلیف تو فراہم کرے۔ اسکی ایک صورت حسبِ سابق ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ ہے لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرپرسن فوزیہ وہاب نے تنخواہوں میں اضافے کا امکان رد کرتے ہوئے ملک کے بہت بڑے طبقے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ مرکز ملازمین کی تنخواہ بڑھائے تو صوبے اسکی تقلید کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو بھی اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے فوزیہ وہاب کی تجویز پر عمل کیا تو ملک میں ہر سو مایوسیوں کے سائے چھائے ہوں گے۔حکومت ملازمین کو اس لئے مہنگائی کے تناسب سے ریلیف نہیں دینا چاہتی کہ یہ بے زبان طبقہ ہے۔ اپنے حق کیلئے احتجاج کی ہمت نہیں کرتا۔ احتجاج کرے بھی تو حکومت کو اسکی پروا نہیں۔ حکومت کے پاس روپے پیسے کی کیا کمی ہے۔ مالی ذخائر کی مقدار 18 ارب ڈالر تک ہے۔ امریکہ کی جنگ کا کرایہ اربوں ڈالر میں مل رہا ہے۔ کشکول برداری سے بھی کچھ کم رقم وصول نہیں ہورہی۔ سیلاب زدگان ہنوز بے آسرا ہیں، بیرون ممالک ملنے والی امداد بھی کہیں محفوظ ہوگی۔ ابھی کل آئی ایم ایف سے مزید قرض بھی لیا ہے۔اسامہ بن بن لادن کی شہادت کے بعد فوج اور آئی ایس آئی زبردست عالمی دباﺅ میں ہے۔ ایسے میں عسکری، حکومت اور حکومت سے باہر کی سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت تھی لیکن وزیراعظم گیلانی سانحہ کے روز فرانس چلے گئے۔ وہ 7 مئی کو واپس پہنچے تو صدر صاحب کویت سدھار گئے، کل وہ روس جائینگے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک جو ہر متعلقہ اور غیرمتعلقہ معاملے میں بولنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، سانحہ ایبٹ آباد پر خاموش رہے اور چند روز کیلئے سعودی عرب چلے گئے۔ اہم مواقع پر بے مقصد دوروں سے ثابت ہوتا ہے کہ پیسہ بڑا ہے۔ جس دن ایبٹ آباد میں قہر ٹوٹا، پی پی، (ق) لیگ قائدین ایوان صدر میں اتحاد کیلئے وعدے معاہدے کررہے تھے اور سات سال تک ساتھ نبھانے کی قسمیں کھا رہے تھے۔ اگلے روز اس وقت 14 وزراءسے حلف لیا گیا جب پوری قوم امریکی جارحیت پر سکتے میں تھی۔ ان وزراءکے اخراجات کے بارے میں سوچئے، ان کیلئے پیسہ ہے، ملازمین کی تنخواہوں کیلئے نہیں ہے۔ (ق) لیگ کے وزراءمیں سے ایک کو اقلیتی امور کی وزارت پسند نہیں آئی تو وہ روٹھ گئے۔ کہا استعفیٰ جیب میں رکھا ہے، دیا اس لئے نہیں کہ کہیں چور کی لنگوٹی بھی ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔ (ق) لیگ کی قیادت نے صدر سے بات کی، وزارت صحت ملی تو روٹھا وزیر مان گیا۔ جب پتہ چلا کہ جون میں وزارت صحت بھی تحلیل ہو جائے گی تو پھر منہ بسور لیا۔ حکومت نے (ق) لیگ کا مطالبہ اس لئے مان لیا کہ اسکے پاس فی الوقت بات منوانے یا بلکہ بلیک میلنگ کی طاقت تھی جو اس نے استعمال کی۔ عوام کے پاس ریلیف کے حصول کیلئے کوئی طاقت نہیں۔ انکی قسمت حکومت کے رحم و کرم پر ہے جس کے پاس دولت کی کمی نہیں، جو صرف اپنے تصرف میں ہی لانے کیلئے ”پرعزم“ ہے۔ سرکاری ملازم چاہیں تو اپنا حق حاصل کرسکتے ہیں بلکہ پوری قوم کو مہنگائی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلا سکتے ہیں۔ تین روز کی ہڑتال کریں، مکمل ہڑتال، نائب قاصد سے لیکر چیف سیکرٹری تک۔ سکول سے لیکر گورنر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم ہاﺅس اور ایوان صدر تک میں کوئی ملازم دستیاب نہ ہو۔ جام تھمانے والے نہ رنگین محفلیں سجانے اور ان میں شمع جلانے والے۔ بجلی گیس بھی بند رہے تو یقین جانئے خوابیدہ ضمیر حکمران جاگ جائیں گے۔ عوام کو رلانے والوں کی طبیعت صاف ہوجائیگی۔ اب شاید اسکے سوا کوئی چارہ نہیں۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment