About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, May 16, 2011

صدر‘ ایوان صدر اور سیاست


16-5-2011 
شفق فضل حسین اعوان
صدر‘ ایوان صدر اور سیاست
صدر آصف علی زرداری کے غیر اعلانیہ ترجمان بابر اعوان لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر خوب برسے جس میں لاہور ہائیکورٹ نے حکم نہیں دیا تھا بلکہ توقع ظاہر کی تھی کہ صدر زرداری ایوان صدر کو اپنی سیاسی جماعت کے اجلاسوں کے لئے استعمال کرنا بند کر دیں گے۔ عدالت نے کرپشن کے الزامات پر صدر کو نااہل قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کوئی برا فیصلہ کرتی ہے تو صدر کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا.... چونکہ ایوان صدر ریاستی پراپرٹی ہے صدر کا اسے یوں اپنی پارٹی کے لئے استعمال کرنا خود مختاری اور ان کی سیاسی غیر جانبداری کے خلاف ہے اس لئے صدر جلد سیاسی عہدہ چھوڑ دیں۔
بابر اعوان نے شاید فون پر فیصلہ کا صرف یہی حصہ سنا کہ صدر سیاسی عہدہ چھوڑ دیں‘ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو سکتیں تو آپے سے باہر ہو گئے۔ صحافیوں کو اکٹھا کیا اور ایک لمبا چوڑا جذباتی لیکچر سنا دیا۔ صدر چونکہ پارلیمنٹ کا حصہ ہے اس لئے ایوان صدر میں سیاست پر پابندی کو ماورائے آئین قرار دیا سابق وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے فرمایا کہ فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق نہیں۔ عدالت نے انصاف پر مبنی فیصلے کرنا ہوتے ہیں کسی کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق نہیں۔ بابر اعوان جس محفل میں اپنے جذبات کے بخارات اُڑا رہے تھے اسی میں یہ بھی فرما دیا کہ ”میں نے ابھی فیصلہ پڑھا نہیں ہے“ جب آپ نے فیصلہ پڑھا نہیں تو اس پر سر بازار دھواں دار تقریر کی ضرورت کیا تھی۔
گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے حوالے سے متفقہ قرارداد پاس کی گئی۔ ان دنوں جعلی ڈگریوں کا ایشو زوروں پر تھا۔ بعض ذرائع ابلاغ بلاتحقیق کسی کی بھی جعلی ڈگری اور نااہلی کی خبریں نشر اور شائع کر رہے تھے جس پر پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی اس کے تین حصے تھے پہلے میں میڈیا کے ایسے عناصر کی مذمت کی گئی جو افواہوں پر مبنی خبریں دے رہے تھے کہ فلاں فلاں کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ قرارداد کا ابھی یہی حصہ پڑھا گیا تھا کہ چند رپورٹروں نے اپنے اپنے ادارے کو رپورٹ بھجوا دی۔ پھر کیا تھا ٹی وی چینلز پر ماہرانہ آراءکا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک بڑے تجزیہ نگار کو شام تک 15 سولہ چینلز نے آن لائن لیا انہوں نے اپنے تبصرے میں پہلے چینل سے بڑھ کر دوسرے چینل میں پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ شام کو ان سے کسی نے پوچھا جناب آپ نے پنجاب اسمبلی کی قرارداد کا مکمل متن ملاحظہ فرمایا ہے تو ان صاحب کا جواب تھا نہیں۔ اس قرارداد کے دوسرے حصے میں میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار اور صحافتی اخلاقیات پر کاربند صحافیوں اور صحافتی اداروں کی کارکردگی کی تعریف و تحسین کی گئی تھی۔ تیسرے حصے میں میڈیا کے صاف ستھری شہرت رکھنے والے صحافیوں اور ایم پی ایز پر مشتمل کمیٹی بنانے کی بات کی گئی تھی۔
نہ صرف بابر اعوان لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بغیر پڑھے اس پر چڑھ دوڑے بلکہ سندھ پیپلز پارٹی بھی ایک مرتبہ پھر ان ایکشن تھی۔ نہ صرف سندھ میں ریلیاں نکالی گئیں بلکہ پی پی کے وزرا اور ارکان بطور احتجاج سیاہ پٹیاں باندھ کر اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر سندھ اسمبلی میں آئے۔
بابر اعوان نے تو شاید اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد مکمل فیصلہ پڑھ لیا ہو وہ قانون دان ہیں‘ فیصلے کو سمجھ بھی گئے ہوں گے۔ جس میں عدالت نے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں کی بات نہیں کی صرف پارٹی کی سیاست کی بات کی ہے۔ صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہے ایوان صدر میں سیاست نہیں تو اور کیا ہو گا! عدالت نے مشورہ دیا ہے کہ پارٹی کی سرگرمیاں ختم کریں یعنی جیالا ازم کو فروغ نہ دیں وہ اسی صورت ممکن ہے کہ صدر پارٹی صدارت سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ پارٹی کی صدارت عزیز ہے تو ایوان صدر کو خدا حافظ کہہ دیں۔ اس فیصلے میں بہت کچھ صدر اور ایوان صدر کی حمایت میں بھی ہے فیصلہ پڑھا ہوتا تو یقیناً پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن اس قدر مشتعل نہ ہوتے۔ زرداری صاحب کے جاں نثار اور فداکار نہ صرف تازہ ترین فیصلے نہیں پڑھتے بلکہ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔ لاہور ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کچھ رہنما یہ بھی کہہ رہے کہ قائداعظم بھی بیک وقت گورنر جنرل اور مسلم لیگ کے صدر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے گورنر جنرل بننے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی۔ 

No comments:

Post a Comment