بدھ ، 18 مئی ، 2011
یہ بھی دھوکہ و فریب نہ ہو
فضل حسین اعوان
دوسری جنگ عظیم میں مکمل تباہی و تاراجی کے بعد جاپان اور جرمنی کو پابندیوں کی زنجیروں میں بھی جکڑ دیا گیا۔ اس کے باوجود ان ممالک نے ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ ترقی کے سفر کاآغاز کیا۔ آج ان ممالک کی خوشحالی اور ترقی کے عروج کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مارچ2011ءکو سونامی نے جاپان کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس کے نیو کلیئر پلانٹ تک بکھر کر رہ گئے۔ بے حدوحساب نقصان ہوا۔ دینے والے ہاتھ کو لینے کی ضرورت پڑی تو ہاتھ پھیلانے کی بجائے پیچھے کھینچ لیا۔ چین 60 کی دہائی کے وسط تک کئی شعبوں میں پاکستان پر انحصار کرتا رہا، آج دنیا کی معیشت پر اس کا غلہ ہے۔ ایران سالہا سال سے پابندیوں کی زد میں ہے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے جیسے جیسے امریکہ دنیا کو ساتھ ملا کر پابندیوں میں اضافہ کر رہا ہے، ویسے ہی ایرانی ایک نئے عزم کے ساتھ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان کر خود انحصاری کی طرف قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ آج ان کی زندگی پابندیوں سے قبل کی زندگی سے زیادہ آسان ہے.... ہمارے حکمران امداد اور خیرات کی بندش کے خوف سے امریکی ڈانٹ دھتکار اور پھٹکار خندہ پیشانی کے ساتھ ہضم کر رہے ہیں۔ امریکہ نے 1989ءاور 1998ءمیں پاکستان پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ بتائیے ان پابندیوں کے باعث کتنے پاکستانی بھوکے سوتے تھے؟ کتنے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے؟ کتنے فاقوں سے مر گئے؟ آج امریکہ پاکستان کی آزادی و خود مختاری کو بُری طرح پامال کر رہا ہے۔ اس کا پاکستان میں عمل دخل، ڈکٹیشن، آپریشن اپنی پالیسیوں کا نفاذ، دہشت گردوں کا داخلہ اور دہشتگردی، اس سب کی وجہ امریکہ کی ہمارے حکمرانوں پر ڈالر نچھاوری ہے۔ گو یہ سبز ڈالران تک پہنچتے پہنچتے معصوم پاکستانیوں کے خون میں رنگ کر سرخ ہو چکے ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کو ڈالر کی قیمت سے غرض ہے، پاکستانیوں کے خون کی قدر نہیں۔
ان حالات میں جب ہر طرف سے قومی و ملکی وقار لو کے تھپیڑوں اور بے رحم موجوں کے دوش پر ہے، شہباز شریف کا خود انحصاری کا عزم ایک بادِ نسیم و سحر کا جھونکا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”غیر ملکی امداد ہماری خود مختاری کی قاتل ثابت ہو رہی ہے۔ ہم اپنی آزادی کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ چکے ہیں۔ اغیار سے امداد لینے کی بجائے ہمیں خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ ملک کو بحرانوں سے نجات کے لئے ایڈ کے بجائے ٹریڈ کے فروغ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی خود مختاری کے لئے کشکول توڑنے کا آغاز پنجاب سے کر رہے ہیں جس کے تحت صوبائی کابینہ نے آئندہ غیر ملکی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر کے عوام کی آواز ہے اور امید ہے کہ یہ نقطہ آغاز ثابت ہو گا۔“ امید کی جانی چاہیے کہ شہباز شریف اپنے عزم کو پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے اگر ایک قدم غیروں کی غلامی سے نکل کر خود انحصاری کی طرف بڑھایا ہے تو ساتھ ہی دوسرا قدم اپنی طرح اپنے وزیروں اور مشیروں کو ایثار کا درس دے کر صوبے کی خوشحالی کی طرف بھی اٹھائیں۔ بابر اعوان نے تین سال میں وزیر اعلیٰ کے کیمپس کے اخراجات 190 ارب روپے بتائے تھے۔ اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ میاں شہباز شریف پچھلے ساڑھے تین سال سے تنخواہ نہیں لے رہے، ان کی تنخواہ ہر مہینے مختلف ہسپتالوں میں چلی جاتی ہے، یہ ہیلی کاپٹروں کے پرائیویٹ استعمال پر آج تک پچاس لاکھ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا چکے ہیں۔ علاج کی مد میں بھی کوئی رقم نہیں لی اور بیرون ملک سرکاری دوروں کے دوران بھی یہ اپنی فیملی کے تمام اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتے ہیں.... شہباز شریف کے وزیر اور مشیر کنگلے نہیں۔ تمام کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی مذکورہ مراعات پر ہاتھ صاف نہ کریں۔ ہو سکے تو گاڑی بھی اپنی استعمال کریں۔ شہباز شریف کے جاں نثار اور وفادار قوم کی خاطر قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں تو مرکز اور دوسرے صوبوں میں اس کی تقلید ہو سکتی ہے۔ عوام میں بھی یہ عمل سراہا جائے گا۔ یقینا ہر کوئی اس احسن اقدام میں اپنے منتخب نمائندوں کی پیروی کرے گا۔ خدا کرے شہباز شریف نے جو کچھ کہا اس میں ان کا خلوص اور نیک نیتی شامل ہوں، یہ محض سیاسی شعبدہ بازی، جادوگری، دھوکہ اور فریب نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment