21 -22 مئی ، 2011
فضل حسین اعوان
امن کی آشا اور بنیئے کی بھاشا والوں کی شرارت، شرمیں بدلی جس نے بالآخر شیطان کا روپ دھار لیا۔ شیطنت کی ابتدا پروگرام ”میرا پتی“ سے کی گئی۔ گو معاشرے میں دین کا روایتی نفاذ نہیں ہے۔ کہیں لوگ رضاکارانہ مکمل طور پر اسلام کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں، کہیں شرم و حیا میں لپٹی جدت نظر آتی ہے۔ لیکن اب اخلاقیات کو بے لبادہ کر کے انسانیت کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ گذشتہ شب نجی چینل پر ایک اداکارہ کو تماشا بنا کر لا کھڑا کیا گیا۔ اس نے تیرہ چاہنے والوں میں سے ایک کو پتی کا اعزاز بخشنا ہے۔ یہ تیرہ کے تیرہ اداکارہ کو نظریں بھر کر دیکھتے، پھول پیش کرتے اور اپنی محبت کا یقین دلاتے رہے۔ آخر میں بے شرمی سے اسے بازوﺅں سے پکڑ کر رقص کیا۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ یہ محترمہ ان میں سے ایک کو اپنا پتی چنے گی۔ ایک شاید پہلے سے موجود ہے۔ اسلام کے ٹھیکیدار خاموش رہے تو یہ ”کنجراپہ“ اڑھائی ماہ چلے گا.... اس موضوع پر پھر کبھی آج اس شر کی بات کرتے ہیں جو چند روز قبل ”....جینے دو“ کا راگ الاپنے والوں نے ”پاکستان نظریاتی ریاست نہیں قومی ریاست ہے“ کے موضوع کے تحت پھیلایا۔ مذکورہ پروگرام میں گو مباحثے کے دوران اوریا مقبول جان اور ابتسام الٰہی ظہیر نے پاکستان کے نظریاتی ریاست ہونے کو بھرپور دلائل سے ثابت کیا۔ لیکن قومیت کے حوالے سے مخالف کیمپ نے جو موقف اختیار کیا۔ اُس میں سے کوئی پوائنٹ نئی نسل کو گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تحریک آزادی کی طرح ملک میں آج بھی قومیت کے پرچارکوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کوئی چینل ایسے پروگرام کر کے کیا قومیت پرستوں کی سوچ کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے۔ ایک امر طے ہو گیا۔ اُسی کی بنیاد پر برصغیر میں مسلمانوں کے لئے آزاد ریاست کا حصول ممکن ہوا تو آج اس معاملے کو اٹھانے کو شرپسندی قرار نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان چیلے چانٹوں کے گُرو اقوام کے وجود کو اوطان سے مشروط کرتے ہیں۔ استدلال علامہ اقبال کے اس شعر سے لیتے ہیں۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
لیکن بعد ازاں علامہ نے یہ بھی تو کہا۔
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اسے بھول جاتے ہیں۔
حضرت علامہ کا تحریک آزادی کے دوران واضح موقف تھا کہ قوم مذہب سے بنتی ہے وطن سے نہیں۔ تب مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں نے جہاں تک ہو سکا اوطان سے اقوام کے فلسفے کی گرد اٹھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ اس موقع پر حکیم الامت نے فرمایا تھا۔
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیت
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست
(عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفیٰ کی بارگاہ میں پہنچاﺅ کہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو ان تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے۔
علامہ نے جو کچھ کہا تھا وہ انداز ایسا لاجواب تھا کہ اس کے فوراً بعد برصغیر کے تمام مسلمانوں کو نظریاتی ریاست کے بارے میں پوری طرح سمجھ آ گئی تھی آج آزاد پاکستان علامہ کے اسی فلسفے کا ثمر ہے۔ پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے پر مہر، بانی ¿ پاکستان نے یہ کہہ کر ثبت کر دی تھی۔
”پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ ¿ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل! ہندوستان کا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔“
اس کے علاوہ بھی قائداعظم کے متعدد ارشادات ہیںجن سے انہوں نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست ثابت کیا۔ فتنہ پروروں کو دیدہ دانستہ یہ نہ جانے بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ ایک لاحاصل اور بے سود بحث لے بیٹھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج یہ بحث چھیڑ دی جائے کہ پاکستان بننا بھی چاہئے تھا یا نہیں؟ پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا۔ پاکستان کی بدولت یہ لوگ وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچے۔ عدم تقسیم کی صورت میں یہ جھاڑوب کَش، گورکن زیادہ سے زیادہ مجاور یا کسی مسجد کے خادم ہوتے تندور جیسی توند والوں کے بیمار سوچ کے حامل آباءپاکستان کے قیام کو گناہ قرار دیتے رہے۔ پاکستان کا کھانے والے اسی بے ہودہ سوچ سوچ کو گلے لگا کر پاکستان کا ہی بینڈ بجا رہے ہیں۔
پاکستان کا نظریاتی ریاست ہونا زندگی و موت، صبح و شام اور شب و روز کی طرح اٹل حقیقت ہے۔ بحث کے نئے تار اور ساز چھیڑ کر نظریاتی و قومی کو آپس میں گڈمڈ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جو آج نظریاتی یا قومی ریاست کی بحث کا بوسیدہ علم لے کر نکلے ہیں یہ دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبونے کے دعویداروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ناسوروں سے خلاصی کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن یہ کبھی شکلیں بدل کر اور کبھی دشمن کے ایجنڈے میں ڈھل کر سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں میر یاد آ جاتے ہیں:
چشمِ خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ اب تو یہ ناسور گیا
آصف بھلی صاحب نے اس ایشو پر لکھا اور خوب لکھا‘ ان کے کالم کے آخری الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔ پاکستان کا نظریاتی ریاست ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کے معاملات میں بحث و مباحثہ نہیں کروایا جاتا۔ کیا ”جیو اور بے شرمی سے جیو“ والے اب آئندہ مباحثہ اس موضوع پر بھی کروانا چاہتے ہیں کہ ”ہمیں مسلمان نہیں دوبارہ ہندو ہو جانا چاہئے“۔ پروین شاکر نے کسی شعلہ بداماں بات کی ہے :
تہمت لگا کے ماں پہ، جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے
No comments:
Post a Comment