About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, June 1, 2011

باپو گاندھی کا روپ بہروپ




1-6-2011
باپو گاندھی کا روپ بہروپ
فضل حسین اعوان 
موہن داس کرم چند گاندھی ہندوﺅں کے بلا شرکتِ غیرے مہاتما نہیں ہیں۔ ایسا ہوتا تو اپنے ہی دھرم کے لوگ ناتھو رام گوڈ سے کے ہاتھوں 30 جنوری 1948 کو ان کا خون نہ کرادیتے۔وہ اپنی عیاری مکاری اور ریا کاری کے باوجود اپنے آپ کو برہما چاریہ کے بہروپ میں پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ قائداعظم ٹرین کی ائر کنڈیشنڈ کلاس میں سفر کرتے تھے گاندھی تھرڈ کلاس بوگی میں یہی سوال گاندھی نے قائداعظم سے کیا تھا۔ جواب میں قائداعظم نے فرمایا میں اپنی جیب سے ٹکٹ خریدتا ہوں ۔تم کانگریس کے فنڈ سے۔ مزید یہ عقدہ بھی کھلا گاندھی کے سفر کو محفوظ بنانے کیلئے پورے ڈبے میں ہندو کرم چاری سوار ہوتے تھے۔ گاندھی نے سادگی کا ناٹک بڑی خوبصورتی سے رچائے رکھا۔ وہ بکری کادودھ پیا کرتے تھے جس کی خوراک میں بادام اور میوہ جات شامل تھے۔ یہ بکری بھی گاندھی کے ساتھ دنیا کی سیر کرتی رہی۔ ولایت کے کئی پھیرے لگائے۔ آج مہا تما کی زندگی پر دھڑا دھڑ کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ جس میں ان کی زندگی کے خفیہ پہلوﺅں سے نقاب اٹھایا گیا ہے۔مصنفین نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیا ہے کہ چلمن کی اوٹ میں مہاتما اور بہت کچھ کرتے رہے۔ اس سب کچھ کو مہاتما شاید پرماتما قرار دیتے ہوں لیکن یہ پاپ کا بحر تھا ، جس میں وہ اپنے خون میں نہائے جانے تک غوطہ زن رہے۔
گاندھی جی پر برطانوی تھامس ویبر کی کتابGandhi's relation ship with western women شائع ہورہی ہے۔ کتاب کے عنوان سے ہی گاندھی کا اصل چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ اس میں مصنف نے گاندھی کے بطور چیلا اور گورو کے کردار کو بھی نمایاں کیا ہے۔گاندھی کی درجنوں عورتوں کے ساتھ دوستی تھی۔ ویبر نے ان کی 25 مغربی عورتوں کے ساتھ تعلقات کی داستان بھی بیان کی ہے ان میں کچھ گاندھی کو چیلنجز، کچھ محقق اور کچھ گورو سمجھتی تھیں۔ تھامس ویبر نے گاندھی کی چہیتی مہلاﺅں کی گاندھی کے ساتھ ملاقاتوں با مراد یا نامراد عاشق سے خط و کتابت کی تفصیلات، ان کی زندگی کے نشیب و فراز سب کتاب میں درج کردئیے ہیں۔ ان میں کئی ہندوستان میں گاندھی کے آشرم تک بھی آگئی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ گاندھی جی کو خواتین کے ہجوم میں گھرے رہنا مطلوب، مقصود و مرغوب تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ حسینائیں انہیں اپنا جیسا جانیں۔ وہ عورت بن کے رہنے کی تمنا رکھتے تھے۔ اگر جسمانی طورپر نہیں تو کم از کم اپنے چال چلن اور ذہنیت کے حوالے سے ضرور۔ رواں سالGreat Soul:Mahatama Gandhi and his struggle with India ریاست گجرات سے شائع ہوئی۔ ابھی فروخت کیلئے مارکیٹ میں نہیں آئی تھی کہ اس پر پابندی لگا دی گئی اس لئے کہ پولٹزر انعام یافتہ رائٹر جوزف للی ویلڈنے اس میں گاندھی جی کے ایک جرمن شخص کے ساتھ ”تعلقات “کا انکشاف کیا تھا۔
یہیں پہ بس نہیں کچھ ہندوﺅں کی نظر میں دیوتا اوتار مختصرالباس گاندھی کوبرطانوی منصف جان ایڈم نے بالکل ہی بے لباس کردیا ہے۔ جان ایڈم کی کتاب ’ گاندھی: نیکڈامبیشن‘ کو کتابی حلقوں میں ایک تہلکہ مچا دینے والی کتاب خیال کیا جارہا ہے۔مصنف نے مہاتما گاندھی کے برہنہ عورتوں کے ساتھ سونے کے علاوہ عجیب و غریب جنسی تجربات کو انتہائی عرق ریزی کے بعد اپنی کتاب میں سمویا ہے۔ جان ایڈم نے گاندھی کی مادی اور دنیوی لذتوں کا احاطہ کرنے اور اُن کی جبلی اور تشنہ خواہشات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایڈم کے بقول مہاتما گاندھی نے خود تحریر کیا ہے کہ اُن کے جنسی روابط پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔گاندھی نے اپنی بیوی کاستروبا کے ساتھ بھی چار بچوں کی پیدائش کے بعد حقوق زوجیت کی ادائیگی کو ناپسند کیا تھا۔ گاندھی چار بچوں کے والد بنے، بعد میں انہوں نے اپنے آشرم میں شادی شدہ افراد کو بیویاں ساتھ رکھنے سے منع کردیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے اُن افراد کو ٹھنڈے پانی کا مشورہ دیا، جو جنسی لذت کے طلبگار تھے۔ ابتدامیں گاندھی نے ایک مکمل اور خوشگوار زندگی گزاری تھی لیکن سب سے حیرت کردینے والی بات شادی کے چھ سالوں بعد جنسی زندگی سے تائب ہونے کا اعلان تھا۔ اس اعلان کے بعد مہاتما گاندھی تالاب میں نہانے کیلئے نوجوان عریاں دوشیزائیں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور اُن کا یہ اقدام ایک اور گاندھی کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اپنے بدن پر عریاں خواتین سے مساج بھی کرواتے تھے اور بستر پر اپنے آشرم کی خواتین کے ساتھ بے لباس سونے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ گاندھی کے ساتھ نہانے والی خواتین میں ان کی سیکرٹری سوشیلانائر کی اٹھارہ سالہ بہن کے علاوہ اُن کی اٹھارہ سالہ بھتیجی مانو بھی شامل تھی۔ آشرم میں رہنے والے کئی مردوں کی بیویاں بھی اس عمل سے گزری تھیں۔ ایڈم نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ بھارت کے ممتاز سیاسی لیڈر جواہر لعل نہرو، گاندھی کی ان حرکات سے خود کو دور رکھتے ہوئے ان کو ابنارمل قرار دیتے تھے.... کراڑوں کے مہاتما اور گورو کا یہ روپ بہروپ ہے تو اندازہ کیجئے ان کے چیلے چانٹوں کا کیا حال ہوگا۔

No comments:

Post a Comment