ہفتہ ، 25 جون ، 2011
پلاننگ....کشمیر اور پاک بھارت تجارت
فضل حسین اعوان
قدرت نے اپنا ایک نظام قائم کر دیا۔ زمین آسمان، چاند سورج، ستارے، سیارے، کہکشائیں خلائیں فضائیں، سب خودکار سسٹم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ کوئی اپنی جگہ ساکت، کوئی متحرک ہے۔ انہیں تیل کی ضرورت نہ ڈرائیور کی۔ خدا نے کُن کہا تو کائنات وجود میں آ گئی۔ اب ربِّ ذوالجلال کے حکم پر نظام چل رہا ہے۔ انسان کو خود مختار بنایا گیا۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر اُسے وہی ملے گا جس کے لئے کوشش کرے گا، تگ و دو کرے گا اور سرگرداں ہو گا۔ زندگی میں پلاننگ بڑی اہمیت رکھتی ہے، انفرادی زندگی میں اور قوموں کی زندگی میں بھی۔ کامیابی کے لئے پلاننگ کے ساتھ اس پر عمل کے لئے محنت ناگزیر ہے۔ عروج انہی قوموں کا مقدر بنا جنہوں نے بہترین پلاننگ کی، اس پر عمل کیا اور جہد میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قرنِ اول کی کامیابیاں، سلطنت کا پھیلا ¶ بہترین منصوبہ بندی اور اس پر عمل پیہم و جہدِ مسلسل کا انعام تھا۔ برطانیہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ بھی اسے بیٹھے بٹھائے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں مل گئی تھی اس کے پیچھے صدیوں کی منصوبہ بندی اور سازشیں کارفرما تھیں۔ دولت عثمانیہ کسی دور میں برطانیہ کے عروج کے دور سے بھی بڑی مملکت تھی اسے سکیڑنے اور بکھیرنے کے لئے برطانیہ نے صدیوں پلاننگ کی۔ ہیمفرے کو 1720ءمیں جاسوسی کے لئے بھجوایا گیا۔ اس سے قبل 1710ءمیں پانچ ہزار گورے ترک سلطنت میں سرایت کر چکے تھے، لارنس آف عریبیہ اِنہیں جاسوسوں کا تسلسل تھا۔ برطانوی بالآخر 1924ءمیں سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہو گئے۔
قائداعظم نے اپنی جان کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے جان لیوا بیماری کے باوجود دن رات ایک کر کے ہمیں پاکستان لے کے دیا۔ پاکستان نے ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر پہلا قدم ہی رکھا تھا کہ قائداعظم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کے بعد سے پاکستان آٹو پر ہے۔ شاید ہمارا قدرت اور اس کے خودکار سسٹم پر زیادہ ہی یقین ہے۔ زمین اپنے مدار میں گھوم رہی ہے۔ ہم نے بھی اپنے اپنے مفادات کو محور بنا لیا ہے ان کے گرد رقصِ کناں ہیں۔ قومی معاملات اور مفادات گردش اور گھن چکر میں ہیں۔ ہم سے 63 سال میں کشمیر کے حصول کی پلاننگ نہیں ہو سکی۔ اس پر عمل اور پھر کوشش کی بات تو بعد کی ہے۔ سالانہ کروڑوں کی مراعات پر ہاتھ صاف کرنے والے طبقے کا ایک اور کارنامہ ملاحظہ فرمائیے، گزشتہ سال یورپی یونین نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر ترس کھا کر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر تین سال تک 75 مصنوعات کو ڈیوٹی فری برآمد کرنے کی اجازت دی جس سے پاکستان کی برآمدات میں 90 کروڑ یورو سالانہ اضافہ متوقع تھا۔ یورپی یونین کی اس پیشکش پر عمل کے لئے 153 ممالک کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی منظوری ضروری تھی۔ 150 ممالک نے پاکستان کے حق میں رائے دی، بھارت اور بنگلہ دیش نے کھل کر مخالفت کی، سری لنکا نیم دلی سے ان کے ساتھ تھا۔ بھارت کے ویٹو کرنے پر معاملہ بگڑ گیا اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو دی گئی رعایت م ¶خر کرنا پڑی۔ یورپی یونین کی رعایت کا معاملہ گزشتہ سال اکتوبر سے چل رہا تھا۔ اس کے بعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اہم ممالک کو اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کے لئے ہماری وزارت نے کیا کوئی کوشش کی؟ اس کا جواب بنگلہ دیش اور سری لنکا کی مخالفت اور بھارت کی ویٹو کی صورت میں سامنے ہے۔ رواں سال 27، 28 اپریل کو اسلام آباد میں پاکستان بھارت تجارت کے سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ راہول کھلر اور ان کے پاکستانی ہم منصب ظفر محمود دلوں میں ایک دوسرے کے ملک کو تجارت کے لئے پسندیدہ قرار دینے کے دیپ جلائے بیٹھے تھے۔ اس پر تو پیشرفت نہ ہو سکی تاہم یہ عقدہ ضرور کُھلا کہ دونوں ممالک کے مابین 1946 اشیاءکی تجارت ہو رہی ہے۔ کشمیریوں کے خون میں ڈوبی ہوئی دوطرفہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر ہے۔ پاکستان بھارت کو 30 کروڑ ڈالر جبکہ بھارت پاکستان کو ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ ہے کوئی توازن تجارت میں؟ تجارتی وفود کے مابین بڑی پیار بھری باتیں ہوئیں جیسی آج نروپما را ¶ اور سلمان بشیر کے درمیان ہو رہی ہیں۔ اُس موقع پر ہماری وزارتِ تجارت اس امر سے کیوں بے بہرہ رہی کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں بھارت کا اہم کردار ہے اسے پاکستان کے خلاف جانے سے روکا جائے۔ اس وقت کیوں نہ پلاننگ کی گئی۔ یہ معاملہ بھی آٹو یہ چھوڑ دیا گیا۔ بھارت کو دیکھئے اس نے ایک اسلامی ملک کو جو 1971ءتک خود پاکستان تھا اسے اپنا ہم نوا بنا لیا۔ بھارت نے اپنی فطرت کے مطابق پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا۔ اس کے باوجود خسارے کی تجارت جاری رکھنا حکام کیلئے شرمناک اور عوام کیلئے اذیت ناک ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو صرف حکمرانی کا مرض، بیورو کریسی کو اپنی نوکری سے غرض ہے؟ قومی معاملات آٹو پر۔! یہی روش رہی تو عوامی خوشحالی کی نا ¶ منجھدھار میں اور ملکی ترقی کا خواب گردشِ لیل و نہار میں رہے گا۔ ہمارے کرتا دھرتا ¶ں سے کتنے بہتر اور مخلص برسلز میں موجود پاکستانی ہیں جو کشمیر کاز کو ایک پلاننگ کے تحت آگے بڑھا رہے ہیں، 11مئی 2011 کو انہوں نے یورپی پارلیمنٹ سے ایک قرارداد منظور کرا لی جس میں یورپی یونین نے بھارت کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment