جمعۃالمبارک ، 10 جون ، 2011
”کاکے عمران! سیاست سِکھ لے“
فضل حسین اعوان
چاچے ماکھے کی دکان کے تھڑے پر جمنے والی محفل یوں تو بزرگوں کی ہے لیکن اس میں نوجوانوں کی شرکت پر بھی پابندی نہیں۔ یہ محفل دیکھ کر یقین مزید پختہ ہو گیا کہ علم کسی کی میراث نہیں۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں پڑھنے والوں کی بھی نہیں۔ اگر ہوتی تو 80 سالہ بابا غلام قادر علم و دانش کا دریا نہ ہوتا۔ جس کی علمیت، فہم و فراست سے نئی نسل سیراب ہو رہی ہے۔ ابھی اخبار نہیں آیا تھا۔ ایک نوجوان نے سوال کیا ”بابا عموماً اخباری مضامین میں جامِ جم کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ کیا ہے“ بابا کا مختصر جواب تھا ”ایرانی بادشاہ جمشید کو جادوگر شراب کے بہت بڑے پیالے میں مستقبل کی تصویر دکھا دیتے تھے۔ اس برتن کا یعنی جام کا نام جامِ جم ہے“۔ دوسرے نوجوان نے کہا ”بابا مجھے جام و سنداں کھیل کے بارے میں نہیں پتہ“۔ ”یہ بھی ایرانی بادشاہوں کے دربار میں پیش کیا جانے والا کھیل ہے۔ ماہر بازیگر ایک ہاتھ پہ بھرا ہوا جام دوسرے پہ لوہے کا گولہ (سنداں) رکھ کر دونوں کو اس طرح اُچھالتا کہ جام، گولے والے ہاتھ میں اور گولہ جام والے ہاتھ پر آ جاتا۔ پھر اس میں اس قدر تیزی آ جاتی کہ جام اور گولے کا فرق مٹ جاتا حتیٰ کہ بادشاہ اور درباریوں کو ایک دائرہ سا لہراتا دکھائی دیتا۔ اس دوران مجال ہے کہ ایک قطرہ ¿ شراب بھی جام سے نیچے گر جاتا۔“ بابا قادر شاید بات آگے بڑھاتا کہ اتنے میں رشید فوجی چنگ چی جِسے موت کا سیارہ بھی کہتے ہیں سے اخبار لہراتا ہوا اترا۔ پچھلے دو رکشوں سے 9 دس کالجئے اتر کر بھی تھڑا مجلس میں شامل ہو گئے۔ رشید فوجی سے زیادہ اہل مجلس کی توجہ اخبار پر تھی۔ شرکاءمیں سے ایک نے قدیم جیالے کی طرف طنزاً دیکھتے ہوئے رشید سے پوچھا ”بتاﺅ آج بونگی شاءنے کیا کیا فلسفہ بھگارا ہے!“ آج بونگی شاءکو چھوڑیں۔ نوجوانوں کی آنکھ کے تارے نے جو پرسوں کہا تھا کہ یقین سے کہتا ہوں کہ اگلی حکومت ہم بنائیں گے۔ آپ سب نے کہا تھا مشکل ہے کچھ اسے ناممکن اور کچھ اسے دیوانے کی بڑ قرار دیتے تھے۔ آج انہوں نے جو کچھ کہا یقین آ گیا کہ آئندہ الیکشن کے بعد تاجِ شاہی عمران خان کے سر پر ہی سجے گا“۔ اب محفل کی توجہ کا مرکز اخبار نہیں اخبار بردار تھا۔ بیک وقت آدھی درجن آوازیں بلند ہوئیں ”کیسے؟“ رشید فوجی نے سیکنڈ ائر کے طالب علم کو اخبار تھما کر کہا ”یہ خبر پڑھو“۔ خبر یہ تھی ”عمران خان نے برمنگھم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی احترام پر مبنی تعلقات قائم کریں۔ ہم اقتدار میں آ کر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں گے۔ جو دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند ہوں گے۔ جس سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خوشحال ملک بن جائے گا“ خبر ختم ہوئی تو ایک آواز اُبھری ”اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان الیکشن جیت کے اقتدار میں آ جائے گا“ جواب رشید کے بجائے کسی اور نے دیا کہ ”اسلام آباد کو صرف ایک راستہ وایا واشنگٹن جاتا ہے۔ واشنگٹن کا حکم ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر بناﺅ۔ دونوں ممالک باہم شیر و شکر ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ ہر پارٹی کی بڑی پارٹیوں پی پی پی اور ن لیگ سمیت واشنگٹن کی طرف حسرت بھری نظریں لگی ہیں۔ عمران خان اس میدان میں ذرا پیچھے تھے سو وہ بھی کود کر سامنے آ گئے۔“
عمران نوجوانوں کی امید اور نوجوان عمران کا اثاثہ ہیں۔ رکشے سے اترنے والے دس میں سے 8 نوجوانوں نے کہا کہ ”ہم عمران کے ووٹر ضرور ہیں عمران کے ایڈونچرازم کے اسیر نہیں۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود عمران خان امن کے دیپ جلانے کی بات کریں گے تو ہم ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔“ ایک اور آواز گونجی ”عمران کو سیاسی پختگی کے لئے مزید ربع صدی کی ضرورت ہے۔ وہ ڈکٹیٹر مشرف کے دامن سے لپٹے رہے لوگوں نے یہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا کہ وہ سیاست میں نووارد تھے۔ الطاف حسین نے جرنیلوں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دی تو عمران حمایت میں خم ٹھونک کر سامنے آ گئے۔ یہ پختہ کار سیاستدان کا وتیرہ نہیں اور اب بھارت کے ساتھ تعلقات کا شوق؟ بھارت کے ساتھ تعلقات 18 کروڑ پاکستانیوں کے خون کی لکیر عبور کر کے ہی قائم ہو سکتے ہیں۔“ ایک اور نوجوان بولا ”عمران خان اگر لوگوں کے دلوں سے اترنا، الیکشن جیتنے کی فضا کو مکدر کرنا اور عام آدمی کی نفرت کا نشانہ بننا چاہتا ہے تو بے شک بھارت کے ساتھ احترام پر مبنی اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی باتیں کرتا رہے۔“ بابا غلام قادر کی اس بات کے ساتھ محفل برخاست ہو گئی ”پاکستان کی سیاست جام و سنداں کا مشکل کھیل نہیں بڑی آسان ہے۔ عوامی جذبات اور توقعات کو مدِنظر رکھیں تو کامیابی قدم چوم لیتی ہے۔ عمران خان کو بتا دو کاکے! سیاست سِکھ لے“
No comments:
Post a Comment