About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, June 25, 2011

مردِ حُر، مردِ پھُر اور ان کے میراثی


آج ، 24 جون ، 2011

مردِ حُر، مردِ پھُر اور ان کے میراثی
فضل حسین اعوان
جلاوطنیاں کاٹنے، جیلیں بھگتنے، ٹھوکریں کھانے اور پھانسی کے پھندے کی زیارت کے باوجود ہمارے ”سیاسی مجاہدین“ پختہ کار ہوئے نہ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا اور نہ ہی تاریخ سے سبق حاصل کیا۔ موجودہ اہم سیاسی لاٹ میں میاں نوازشریف جہاندیدہ اور نسبتاً عمر رسیدہ سیاستدان ہیں۔ انتقامی سیاست کا نشانہ بننے میں نوازشریف اور آصف زرداری میں انیس بیس کا فرق ہے۔ دونوں پر قوم کا بڑا قرض ہے۔ صوبہ سرحد کو خیبر پختونخواہ کا نام دینے کی حمایت، مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے پل بننے کے بجائے اتحاد کے راستے میں پلصراط بنا دینا اور آزادکشمیر میں بھی مسلم لیگ ن کی زچکی کا ستم ڈھا دینا یہ کارہائے میاں صاحب کے نامہ اعمال میں سیاسی گناہوں کے طور پر لکھے جا چکے ہیں۔ آج کل میاں صاحب آزادکشمیر میں نوزائیدہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم پر ہیں۔ ان کی دھواں دھار جذبات کو بھڑکا دینے والی اور لہو گرما دینے والی تقریریں صدر آصف زرداری سے شروع ہو کر پاک فوج اور پاک فوج سے شروع ہو کر آصف زرداری کے ذکرِ خیر پر ختم ہوتی ہیں۔ 
آصف زرداری خود کو مفاہمت کا خوگر سمجھتے، صبر تحمل اور برداشت کا پیکر قرار دیتے ہیں۔ نوازشریف کو بارہا بھائی کہا ان کی کڑوی کسیلی باتیں بڑے حوصلے سے سنتے ہیں لیکن شہیدوں کے مزار پر نہ جانے ان کے جسم میں کس کی روح حلول کر جاتی ہے کہ وہ جوش میں اپنے ہوش سے جیسے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ کہاں کا بڑا بھائی۔ کہاں کی مفاہمت، تحمل اور برداشت، سب چھومنتر۔ اب بھی محترمہ کی 58ویں برسی کے موقع پر وہ خوب گرجے اور برسے۔ نوازشریف کے کرپشن کے الزامات کا جواب ایسے ہی الزامات لگا کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ مثلاً انہوں نے یہ کہا کہ برطانیہ میں بھی بجلی جاتی ہے تو وہاں کا میڈیا نہیں دکھاتا۔ گویا حکومت ترقی یافتہ ممالک کی تقلید میں بجلی بند کرتی ہے۔ کیا وہاں کئی علاقوں میں 10 بارہ گھنٹے بھی بجلی بند رہتی اور بندش کی وجہ بجلی کی کمی نہیں بلکہ ایڈونچر کے لئے کمپنیوں کو ان کے بقایات کی ادائیگیاں اور بعض پاور پلانٹس کو تیل کی فراہمی روک دی جاتی ہے؟ حکومت یہ ایڈونچر کرتی ہے تو میڈیا ایڈونچرازم کی تلاش میں کیوں نہیں ہو گا۔ زرداری صاحب بلاول بیٹا سے پوچھیں جہاں وہ پڑھ رہے ہیں وہاں کبھی بجلی گئی ہے جو لوگ وہاں یعنی لندن میں پانچ سال رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے نہ کبھی بجلی گئی نہ کبھی بلب فیوز ہوا۔ زرداری صاحب نے جوشِ خطابت میں یہ بھی فرما دیا کہ ”میرے 35 ہزار بچے مر گئے نوازشریف کہتے ہیں یہ ہماری جنگ نہیں“۔ اس جنگ کو صرف نوازشریف ہی نہیں پوری قوم امریکی جنگ قرار دیتی ہے۔ سوائے ان چند کے جو ڈالروں کی آلائش کو زیبائش سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ہماری جنگ ہے تو امریکی ڈکٹیشن کیوں۔ کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد کے لئے بے صبری، وار سپورٹ فنڈ کی طلب اور وصولی کس لئے؟ ہلیری، گیٹس، مولن، پیٹریاس، جان کیری اور دیگر امریکی عہدیداروں کے وقفے وقفے سے دوروں کا مطلب؟ سٹرٹیجک مذاکرات کس مقصد کے لئے؟ 35 ہزار جانوں کا نذرانہ اس لئے دیا کہ امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنا لیا جائے؟ 35 ہزار بچے تو راہی عدم سفر ہو گئے باقی کروڑوں بچے حکومت کی پالیسیوں، بدامنی، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے ہاتھوں موت کی طرف رختِ سفر باندھے ہوئے ہیں ان کو تو بچا لیں۔ آپ اپنی جنگ لڑتے رہیں۔ امریکہ کو اس جنگ سے دور کر دیں۔ ڈرون حملے ہی بند کروا دیں تو پارلیمنٹ کی قرارداد کی کچھ عزت رہ جائے گی۔ یہ جنابِ صدر آپ کا اپنے بچوں کے لئے بھی عظیم تحفہ ہو گا۔ 
زرداری صاحب نے یہ بھی طعنہ دیا کہ نوازشریف کے سیاسی گُرو نے مجھے مردِ حُر قرار دیا۔ نظامی صاحب نے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا:”میں کسی کا سیاسی گرو نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی سیاسی گرو مانتا ہے۔ میں نے جب زرداری صاحب کو صرف لمبی جیل کاٹنے کی وجہ سے ”مردِ حر“ قرار دیا تھا تو میاں صاحب جدہ کے سرور پیلس میں سُرور لے رہے تھے.... جب سرور پیلس کے ڈائننگ ٹیبل پر میاں صاحب نے طنزاً کہا کہ آپ نے زرداری کو ”مردِ حر“ قرار دے دیا ہے؟ تو میں نے جواب دیا اگر آپ بھی یہاں سُرور نہ لے رہے ہوتے جیل میں ہوتے تو اس سے پہلے میرے ”مردِ حر“ ہوتے۔ میں ”مردِ حر“ کا خطاب واپس نہیں لوں گا۔“ نوازشریف کے سیاسی گُرو تو جنرل غلام جیلانی خان ہیں جو نوازشریف کو اپنی گورنری کے سائے میں سیاست میں لائے۔ ایک فوجی جو سیاست کے رموز سکھا سکتا ہے سکھائے۔ میاں صاحب کے مہا گُرو جنرل ضیاءالحق تھے۔ جن کے ملائی کردار کے باعث زرداری صاحب نے مہا گُرو اور ان کے چیلے کو مولوی قرار دیا ہے۔ بڑوں کی بیان بازی کے باعث سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج پر ہے۔ جو موجودہ حالات میں ملک، قوم، سیاست، جمہوریت اور خود بیان بازوں کے اپنے مفاد میں بھی نہیں۔ مردِ حُر یا مردِ پھُر۔ کوئی جذباتی بیان دیتے ہیں تو اس سے گرما گرمی ضرور ہوتی ہے لیکن چنگاری کو بھانبھڑ بنانے میں ان کے میراثی اور قصیدہ گو یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ گھٹنوں کے بل اُٹھ اُٹھ کے اپنے لیڈر کی قصیدہ بیانی اور حریف کی ہجو رسانی کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ آجکل کے اخبارات ملاحظہ فرمائیے۔ سب واضح ہے۔ 
اگلے سال مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہونگے۔ پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اس سے قیامت نہیں آ جائے گی۔ لیکن وہ سماں قیامت سے کم نہیں ہو گا جب پی پی حکومت کا تختہ، سینٹ الیکشن سے قبل الٹا دیا جائے گا۔ میاں صاحب نے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے تین سال فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سن کر نکال دئیے۔ پیپلز پارٹی کا اپنی حکومت الٹائے جانے پر ابال اور اشتعال اگلی حکومت کے قیام کے پہلے دن سے سوا نیزے پر ہو گا۔ پھر آپا دھاپی کا سلسلہ ہمیں 80 اور نوے کی دہائی میں لے جائے جب نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی دو دو حکومتیں محض 10 سال میں گرا دی گئی تھیں۔ ویسے تو پیپلز پارٹی نے اپنے ناپسندیدہ اقدامات اور مسلم لیگ ن نے بلا جواز الزامات سے مہم جوﺅں کے لئے در وا کر دئیے ہیں جو 90دن میں حالات سدھار کر واپس جانے کا عہد کر کے مُکر جاتے ہیں اور پھر دس بارہ سال تک چل سو چل۔ مہم جوئی کے راستے بند کرنے کی چابی بھی ہمارے سیاسی قائدین اکابرین اور عمائدین کے ہاتھ میں ہے۔اپنے اندر اتحاد پیدا کریں۔ حوصلے، 
تدبر اور تحمل سے کام لیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔


No comments:

Post a Comment