بدھ ، 29 جون ، 2011
کڑا احتساب
فضل حسین اعوان
ہم پاکستانی بیک وقت اچھائی اور برائی کی انتہاﺅں پر ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں پاکستانیوں سے بڑھ کر رفاعی، فلاحی اور بہبودی کام ہوتے ہوںگے۔ خیراتی اداروں کا کوئی شمار قطار نہیں۔ مزاروں درگاہوں اور خانقاہوں پر ہمہ وقت لنگر کھلے رہتے ہیں۔ کھربوں کے اثاثوں کا مالک بلقیس ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ لوگوں کے عطیات پر چلتا ہے۔ عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کے سالانہ اڑھائی تین ارب روپے کے اخراجات بھی اہل ثروت پورے کرتے ہیں۔ ملک میں ہزاروں ویلفیئر ٹرسٹ انفرادی یا اجتماعی کوشش اور کاوش سے چل رہے ہیں۔ دوسری طرف دغا فریب جھوٹ فراڈ اور جعل سازی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ گذشتہ روز شہباز شریف نے مری میں پارکوں کی غیر معیاری اور ناقص تعمیراتی کام کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کے احکامات جاری کئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے پی آئی اے پارک مری کے ٹھیکیدار کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہ کرنے پر ایس ایچ او مری کو معطل کر دیا۔ معطلی بھلا کونسی سزا ہے؟ دو چار دن بعد بحالی۔ تین سال میں شہباز شریف نے اوپر سے نیچے تک بہت لوگوں کو معطل کیا۔ اگر یہ دوسروں کے لئے سبق کا سامان بنے ہوتے تو کوئی اصلاح نظر آتی۔ جن الزامات پر معطلی ہوتی ہے۔ اس کی انکوائری ہو۔ جرم ثابت ہونے پر اس کے مطابق سزا ملے۔ ہتھکڑیاں، قید اور برطرفیاں۔ تو یقیناً دیکھنے اور سننے والے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ شکایت کا موقع نہ دیں یہی اصلاح ہے۔ بعض حکام اور اہلکار تو معطلی کو ریسٹ سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں۔ معطلی کی سزا کو یہ لوگ جزا سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں آخر معیار رہ کہاں گیا ہے؟ سرکاری خزانے سے بننے والی سڑکیں عمارتیں پل، گلیاں نالیاں سیوریج پارکیں وغیرہ۔ پانی کے بلبلے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ نوازشریف نے سچ کہا کہ ہم نے موٹروے بنا دی۔ جی ٹی روڈ برسہا برس سے بن رہی ہے اس کی تعمیر کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی۔ طویل سڑکوں کی بات کُجا چند کلومیٹر سڑک ایک طرف مکمل ہوتی ہے دوسری طرف اس کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ پھر نیا ٹھیکہ اور پرانے ٹھیکیدار۔ سڑک کے اوپر سڑک۔ بازاروں اور گلیوں سے پرانا ملبہ اٹھائے بغیر نئی تعمیر۔ چند سال میں گھر دکانیں اور کاروباری عمارتیں ”کھوہ“ بن جاتی ہیں۔ بارش اور سیوریج کے پانی کو نکاس کے لئے راستوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں رہتی.... استعمال کی کونسی چیز ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ ہر چیز جعلی بناوٹی اور ملاوٹی۔ اشیائے خورد و نوش سمیت۔ ملاوٹ کرنے والے جہاں اپنی عاقبت برباد کر لیتے ہیں وہیں استعمال کرنے والوں میں بیماریاں بانٹتے اور ان کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ اکثر جعلسازوں کو قدرت دوسروں کے لئے عبرت بناتی ہے لیکن ہمیں موت تو یاد ہی نہیں۔ جنازے اٹھتے دیکھتے ہیں تو سمجھ لیا جاتا ہے۔ اساں بلھیا مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر متعدد بار ملاوٹ کے خلاف بڑے طمطراق سے مہمیں شروع ہوئیں۔ جو ملاوٹ مافیا کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ تجاوزات کے خلاف کیا کبھی کوئی آپریشن کامیاب ہوا؟ چند روزہ غلغلے کے بعد خاموشی اور پھر پسپائی.... معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ عزم و ارادے اور کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ جو اب تک تو کہیں نظر نہیں آیا۔ سخت احتساب کے بغیر معاملات درست قطعی نہیں ہو سکتے۔ ایک واقفِ حال نے نوائے وقت کو مراسلہ بھجوایا۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔
ایک سابق وفاقی وزیر نے پھر وفاقی وزیر بنتے ہی دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ پوسٹنگ، ٹرانسفر فی آفیسر لاکھوں روپے تک وصول کئے گئے ہیں۔ اپنے دفتر کی خصوصی مرمت بغیر ٹینڈر دوست کو ایک کروڑ سے زائد کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ اپنی ذاتی اور اپنے بہنوئی کی کوٹھی واقع کراچی کی خصوصی مرمت پی ڈبلیو ڈی کے افسران کر رہے ہیں اور موصوف کے اپنے گاﺅں میں پی ڈبلیو ڈی کے افسران فارم ہاﺅس تعمیر کر رہے ہیں۔ 1988ءمیں موصوف جب ممبر قومی اسمبلی بنے تو انہیں پیپلز ورکس پروگرام کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے دست راست کو ڈائریکٹر جنرل مقرر کروایا اور خوب مال کمایا۔ حکومت ٹوٹنے کے بعد سارا ریکارڈ نذر آتش کر دیا گیا اور موصوف غیر ملک کو فرار ہو گئے۔ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
بدعنوانی، کرپشن، بے ایمانی اور بددیانتی کے حوالے سے شاید ہر تیسرے وزیر مشیر کا ایسا ہی تاریخی ریکارڈ ہے۔ پہلی کرپشن پر گرفت ہو جائے تو کرپشن کا سدباب ممکن۔ ڈھیل مل جائے تو بے ایمان لوگ مزید شیر ہو جاتے ہیں۔ لوٹ مار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حل ایک ہی ہے پائی پائی کا حساب اور کڑا احتساب۔ سلسلہ اوپر سے شروع کر کے نیچے تک لایا جائے۔
No comments:
Post a Comment