میرٹ ڈی میرٹ: اور ڈاکٹر اے کیو خان
فضل حسین اعوان
میرٹ کا جنازہ جس دھوم اور شان سے ہمارے ہاں نکلتا ہے شاید اس زور شور، غلغلے اور شوکت و شکوہ سے کہیں باراتیں بھی نہ چڑھتی ہوں۔ میرٹ، ڈی میرٹ ہونے سے امیدوں کے چراغ اور یقیں افروز شمعیں فروزاں ہو کر گرد و پیش کو بقعہ نور بنانے کے بجائے بے تیل دئیے کی طرح بجھتے ہوئے مایوسیوں کے سائے پھیلا دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں کس چیز کی کمی ہے؟ وسائل سے بھرپور ملک، جفاکش افرادی قوت، مایہ ناز ماہرین ہیں۔ بدقسمتی سے وسائل سے استفادہ کیا جاتا ہے نہ ماہرین کی خدمات سے۔ وزیر مشیر اہلیت کی بنیاد پر نہیں بنائے جاتے شاید قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ یہی معاملات دیگر شعبوں میں تعیناتیوں کے ہیں۔ میرٹ ڈی میرٹ کی حقیقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قلمی تحریروں کے عکس پر مبنی کتاب ”عراضہ“ دیکھ کر نظروں کے سامنے گھومنے لگی۔ گو ڈاکٹر خان صاحب کے جاں نشینوں نے اُن کے جاں نشیں ہونے کا حق ادا کر دیا تاہم نوائے وقت کے ان کی بہترین خدمات اور پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے کارنامے پر دئیے گئے محسن پاکستان کے خطاب کے حامل ڈاکٹر خان کو وہ مرتبہ و درجہ نہ مل سکا جس کے وہ سزاوار تھے۔ فوجی آمر نے امریکہ کے خوف سے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ امریکہ کے حوالے کرنے کی تیاری تھی۔ پھر گھر میں نظربند کر دیا۔ موجودہ حکمرانوں کے سر پر بھی امریکی گرز لہرا رہا ہے۔ ان کے جدِ امجد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب دیکھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے محدود وسائل اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اس خواب کو حسین تعبیر دیدی۔ آج پاکستان میں بجلی کی شدید کمی ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک ایٹمی ٹیکنالوجی کو جدید تقاضوں سے ہمکنار اور استوار کر رہے ہیں۔ وہ یہ کام جاری رکھیں۔ ”عراضہ“ ان کی بڑے شعرا غالب، فیض، داغ دہلوی، حفیظ جالندھری، جگر مرادآبادی، ساغر نظامی، کرنل مجید ملک، طباطبائی، مرزا سودا، مجاز، ولی دکنی اور دیگر شعرا کے کلام کے خوبصورت قلمی عکس پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر غزلیں، نظمیں اور قطعات اردو اور کچھ فارسی میں ایک آدھ عربی میں بھی ہے۔ انتساب کمال کا ہے۔ تصاویر کے ساتھ۔ بانی پاکستان کے نام۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا خواب دیکھنے والے کے نام۔ ذوالفقار علی بھٹو.... ایٹمی قوت کی تکمیل کرنے والے کے نام۔ جنرل ضیاءالحق.... ایٹمی قوت کی تعمیر کرنے والے کے نام۔ ڈاکٹر قدیر خان.... اس خواب کو تعبیر دینے والے کے نام۔ نوازشریف.... کتاب جبار مرزا نے مرتب کی۔ پبلشر علامہ عبدالستار عاصم کا کہنا ہے کہ کتاب کی تمام آمدنی ڈاکٹر خان کے فلاحی کاموں پر خرچ کی جائے گی۔ تو پھر کالم نویسی کیوں؟ کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے حضرت یوسفؑ کی مختصر ترین داستان سنانے والے کے لئے انعام رکھا۔ مستحق وہ ٹھہرا جس نے چند الفاظ لکھ کر سب کو دنگ کر دیا۔ ”حضرت یوسف اپنے والد سے بچھڑے اور پھر مل گئے“ ڈاکٹر قدیر خان پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن ”عراضہ“ میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں مختصراً لکھ کر کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے چیدہ چیدہ نکات ملاحظہ فرمائیے۔ 6 اپریل 1998ءکو غوری 1، 1500 کلومیٹر (بلاسٹک میزائل) تجربہ کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کور کمانڈر منگلا کے طور پر مدعو تھے لیکن حواس میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ ہم آیت الکرسی کا ورد کر رہے ہیں۔ ادھر خانہ کعبہ میں حج ہو رہا ہے اور آپ کس حالت میں آ گئے۔ یہاں سے ان کا جنرل مشرف سے اختلاف پیدا ہوا۔ بعد ازاں بدقسمتی سے جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو بن گئے اور اختلافات قائم رہے۔ مئی 2000ءمیں جب غوری III (4000 کلومیٹر رینج) پر پچاس فیصد کام مکمل تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے یہ کہہ کر فنڈز جاری نہ کئے کہ ”اسرائیل تباہ کرنا چاہتے ہو؟“ پھر جنرل مشرف نے جنوری 2004ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ڈی بریفنگ شروع کر دی۔ فروری 2004ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے زبردستی اعترافی بیان دلوایا گیا پھر انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے سی 130 جہاز تیار کر کے کھڑا کر دیا گیا کہ عین موقع پر اس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی نے ایگزٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جان تو بچ گئی مگر جمالی مشرف اختلافات کا آغاز ہو گیا انہی اختلافات کی بناءپر آگے چل کر 26 جون 2004ءکو امریکہ کے ایماءپر جمالی کو وزارت عظمٰی سے علیحدہ کر دیا گیا۔ ایک تبصرے میں ڈاکٹر اے کیو خان نے نے کہا کہ میاں محمد شریف کو پاکستان اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بہت عزیز تھا۔ ایٹمی دھماکوں سے پیشتر ایک مرتبہ میری ملاقات ان سے مدینہ منورہ میں اوبرائے ہوٹل میں ڈنر کے دوران ہوئی۔ میاں نوازشریف نے میرا تعارف کرایا اور کہا ابا جی یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جنہوں نے ایٹم بم بنایا ہے۔ میاں صاحب نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد انہوں نے لاہور میں مجھے ملنے کی دعوت دی یہ ملاقات جاتی امرا میں ہوئی (اس ملاقات کا اہتمام جناب مجید نظامی نے کرایا تھا) میاں صاحب نے باہر آ کر مجھے خوش آمدید کہا اور گلاب کے ہار پہنائے۔ (ڈاکٹر صاحب یہاں معذرت کیساتھ) غلط بیانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ مجید نظامی کے پاس آئے کہ مجھے رائے ونڈ لے چلیں۔ یہ ملاقات دھماکے سے پہلے ہوئی بعد میں نہیں۔ اس ملاقات کے بعد غلط فہمیاں دور ہوئیں)۔ باتوں باتوں میں، میں نے ان سے کہا کہ میاں نوازشریف نے ایک نہایت بدکردار شخص (مشرف) کو آرمی چیف بنایا ہے یہ ان کا تختہ الٹے گا جس پر میاں صاحب نوازشریف پر ناراض ہوئے اور میرا کہا بعد میں سچ ثابت ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی پاکستانی سیاست پر بھی گہری نظر ہے۔ اپنے ایک مضمون میں دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کے بارے لکھتے ہیں:
امید تھی دس سال کی جلاوطنی اور لاتعداد لوگوں سے ملاقاتوں اور بحث و مباحثہ کے بعد میاں نوازشریف ایک نہایت پختہ اور سمجھدار سیاستدان کے طور پر واپس آ کر ملک کی اور عوام کی خدمت کرینگے اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دینگے مگر نہ صرف میں بلکہ لاتعداد دوست و احباب اور شہری ان کے اعمال سے سخت مایوس ہوئے۔ انہوں نے مصدقہ راشیوں، چوروں کے ساتھ اپنا مقدر وابستہ کر لیا اور اس وہم کا شکار ہو گئے کہ وہ جمہوریت اور ملک کے نجات دہندہ ہیں اور راشیوں اور نااہلوں کی ڈھال بن کر ملک بچا رہے ہیں۔ تین سال سے زیادہ وقت ضائع کرنے کے بعد اب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور اب موجودہ حکمرانوں کے خلاف کچھ باتیں کر رہے ہیں۔ میرا مشورہ ان کو یہ ہے وہ اب میاں شہباز شریف کو قومی سطح پر سیاست کرنے دیں، انہیں کھلا ہاتھ دیں اور خود بزرگ سیاستداں کے طور پر پیچھے رہ کر بوقت ضرورت مشورہ دیدیا کریں۔ حالات جس قدر تیزی سے بگڑ رہے ہیں اگر انہوں نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اگلے الیکشن کے بعد وہ صرف صنعتکار ہی رہ جائینگے۔
9-6-11
میرٹ ڈی میرٹ: اور ڈاکٹر اے کیو خان
فضل حسین اعوان
گزشتہ سے پیوستہ
ڈاکٹر خان نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ میاں نواز شریف کو میرا یہ مشورہ ہے وہ اب میاں شہباز شریف کو قومی سطح پر سیاست کرنے دیں، انہیں کھلا ہاتھ دیں اور خود بزرگ سیاستداں کے طور پر پیچھے رہ کر بوقت ضرورت مشورہ دیدیا کریں۔ حالات جس قدر تیزی سے بگڑ رہے ہیں اگر انہوں نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اگلے الیکشن کے بعد وہ صرف صنعتکار ہی رہ جائینگے۔ آئیے آپ کو ایک نہایت ہی عزیز اور عالم عرب دوست کا ہمارے لیڈروں کے بارے میں تجربہ بیان کرتا ہوں۔ ایک روز میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کا ہمارے حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ میرا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں مگر میرے اصرار پر کہا کہ آپ کے اس سوال نے مجھے اپنے علاقہ کے ایک نہایت خوبصورت عام منظر کی یاد دلا دی ہے کہ ریگستان میں اونٹوں کی قطار جا رہی ہے ایک کے پیچھے ایک، بہت ہی خوبصورت قافلہ، سب سے پچھلے اونٹ کی نکیل اگلے اونٹ کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور اسکی نکیل اس سے اگلے اونٹ کی دُم سے، اس طرح یہ سلسلہ جاری ہے مگر جب میں سب سے اگلے اونٹ کے پاس جاتا ہوں تو تعجب اور حیرت کا شکار ہو جاتا ہوں کہ اُس کی نکیل ایک گدھے کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور وہ ان کا لیڈر اور رہنما ہے۔ انہوں نے کہا مجھے آپ کے ہاں ہمیشہ یہی خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک گلہ ضرور ہے کہ انہوں نے کالم نگاری کیلئے ایسے ادارے کو منتخب کیا جس کے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں منفی خیالات و جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اسی ادارے نے گورڈن کوریرہ کی شاپنگ فار بمز کی ڈاکٹر خان کی تضحیک، تذلیل پر مبنی کتاب کا بڑے اہتمام کے ساتھ ترجمہ شائع کیا۔ ڈاکٹر صاحب انمول ہیں وہ اتنے سستے نہیں انہوں نے اپنی قیمت بہت کم لگوائی۔مجید نظامی صاحب سے اشارةً بھی بات کرتے تو وہ ان کی انا کبھی مجروح نہ ہونے دیتے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں بتائے بغیر کیچڑ کے کنویں میں چھلانگ لگا دی اور یہ خیال نہ کئے کہ نوائے وقت نے ان کی رہائی کے لئے کروڑوں کے اشتہار لگائے اور جو حکومتیں مرکزی یا صوبائی ان اشتہارات کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ ان کے اشتہار اپنے لئے بند کروائے۔
9-6-11
میرٹ ڈی میرٹ: اور ڈاکٹر اے کیو خان
فضل حسین اعوان
گزشتہ سے پیوستہ
ڈاکٹر خان نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ میاں نواز شریف کو میرا یہ مشورہ ہے وہ اب میاں شہباز شریف کو قومی سطح پر سیاست کرنے دیں، انہیں کھلا ہاتھ دیں اور خود بزرگ سیاستداں کے طور پر پیچھے رہ کر بوقت ضرورت مشورہ دیدیا کریں۔ حالات جس قدر تیزی سے بگڑ رہے ہیں اگر انہوں نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اگلے الیکشن کے بعد وہ صرف صنعتکار ہی رہ جائینگے۔ آئیے آپ کو ایک نہایت ہی عزیز اور عالم عرب دوست کا ہمارے لیڈروں کے بارے میں تجربہ بیان کرتا ہوں۔ ایک روز میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کا ہمارے حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ میرا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں مگر میرے اصرار پر کہا کہ آپ کے اس سوال نے مجھے اپنے علاقہ کے ایک نہایت خوبصورت عام منظر کی یاد دلا دی ہے کہ ریگستان میں اونٹوں کی قطار جا رہی ہے ایک کے پیچھے ایک، بہت ہی خوبصورت قافلہ، سب سے پچھلے اونٹ کی نکیل اگلے اونٹ کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور اسکی نکیل اس سے اگلے اونٹ کی دُم سے، اس طرح یہ سلسلہ جاری ہے مگر جب میں سب سے اگلے اونٹ کے پاس جاتا ہوں تو تعجب اور حیرت کا شکار ہو جاتا ہوں کہ اُس کی نکیل ایک گدھے کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور وہ ان کا لیڈر اور رہنما ہے۔ انہوں نے کہا مجھے آپ کے ہاں ہمیشہ یہی خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک گلہ ضرور ہے کہ انہوں نے کالم نگاری کیلئے ایسے ادارے کو منتخب کیا جس کے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں منفی خیالات و جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اسی ادارے نے گورڈن کوریرہ کی شاپنگ فار بمز کی ڈاکٹر خان کی تضحیک، تذلیل پر مبنی کتاب کا بڑے اہتمام کے ساتھ ترجمہ شائع کیا۔ ڈاکٹر صاحب انمول ہیں وہ اتنے سستے نہیں انہوں نے اپنی قیمت بہت کم لگوائی۔مجید نظامی صاحب سے اشارةً بھی بات کرتے تو وہ ان کی انا کبھی مجروح نہ ہونے دیتے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں بتائے بغیر کیچڑ کے کنویں میں چھلانگ لگا دی اور یہ خیال نہ کئے کہ نوائے وقت نے ان کی رہائی کے لئے کروڑوں کے اشتہار لگائے اور جو حکومتیں مرکزی یا صوبائی ان اشتہارات کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ ان کے اشتہار اپنے لئے بند کروائے۔
No comments:
Post a Comment