About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, June 18, 2011

”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے “

 ہفتہ ، 18 جون ، 2011


”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے “
فضل حسین اعوان 
اڑھائی تین درجن نوجوان بڑے جذباتی انداز اور والہانہ پن سے نعرہ زن تھے ”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے، دین بچا لو ملک بچا لو، اللہ اکبر....!“ دو چار نے ہاتھ میں بیس بال کے بیٹ پکڑے ہوئے، میدان پنجاب یونیورسٹی نہر والی سڑک کے عین درمیان، جہاں سڑک کی تنگ دامانی کے باعث عموماً ٹریفک رک رک کر اور رینگ رینگ کر چلتی ہے۔ اس میں سڑک کا قصور نہیں، ٹریفک ہی شہر میں ٹڈی دل کی طرح نازل ہو گئی ہے۔ بعض اوقات گاڑی میں اڑھائی تین کلومیٹر کا کیمپس ایریا کراس کرنے میں آدھ پون گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اکثر موٹر سائیکل سوار نوجوان فٹ پاتھ کی پشت پر کاٹھی ڈال کر اپنی منزل آسان بنا لیتے ہیں۔ 
ٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے جیل روڈ انڈر پاس سے ایف سی کالج انڈر پاس اور پھر اس سے آگے کیمپس انڈر پاس سے شاہ دی کھوئی انڈر پاس تک سڑک چوڑی کرنے کا منصوبہ بنا۔ حمید نظامی ہال میں اس کے حامی اور مخالف مدعو کئے گئے۔ ناظم لاہور میاں عامر سڑک کی توسیع کے منصوبے، تعمیر کے حق میں بھرپور دلائل اور بریفنگ دینے کیلئے انجینئروں کے ساتھ آئے۔ دوسری طرف بھی کم تیاری نہ تھی۔ بالآخر فریال گوہر نے یہ کہا کہ سڑک کی توسیع و تعمیر کے لئے جس درخت کی طرف آرمی کا رخ ہوا ہم اس سے چمٹ جائیں گے۔ سڑک کشادگی کے مخالفین کا موقف ہے کہ درخت کٹنے سے آلودگی میں اضافہ ہوگا۔ ان مقامات پر ٹریفک جام ہوتی ہے تو آلودگی کی تمام حدیں عبور ہو جاتی ہیں۔ پٹرول گیس کا ضیاع اور انسان الگ سے ہلکان ہوتے ہیں۔ ان مقامات پر ٹریفک جوں کی رفتار سے اور سڑک کی توسیع کا معاملہ عدالتی سٹے پر چل رہا ہے۔ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے کہ درخت انسان کی ضرورت ہے انسان درختوں کی نہیں! ایک درخت کے بدلے ہزار لگائے جا سکتے ہیں۔ انسان کیا انسان کی زندگی کا گزرا ایک لمحہ بھی واپس نہیں لایا جا سکتا۔ یہاں تو ہزاروں لاکھوں کروڑوں لمحات ضائع ہو جاتے ہیں ع
علاج اس کا کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں 
نہر جہاں ٹریفک عموماً پھنس پھنس کر چلتی ہے، آج بھی پھنسی۔ دو چار منٹ معمول کی بات، آٹھ دس منٹ میں تو لمبی لائن لگ جاتی ہے۔ پندرہ منٹ بعد بے چینی اور بےقراری قدرتی امر تھا۔ 16 جون کا نام لے دینے سے ہی گرمی کی شدت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اب لوگ گاڑیوں سے نکل کر پسینہ خشک کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاہم چند ایک بڑی گاڑیوں کے اے سی رواں تھے۔ موٹر سائیکل پہلے تو سرعت کے ساتھ فٹ پاتھ سے گزرتے رہے۔ چند منٹ بعد ان کی سپیڈیں دھیری ہوئیں پھر فٹ پاتھ بھی جام....! تھوڑا آگے روشن آنکھوں، نورانی چہروں والے نوجوان رقصِ درویشاں میں مصروف تھے۔ ان سے کہا گیا آپ کا احتجاج ریکارڈ ہو گیا، 20 منٹ سے ٹریفک جام ہے اب جانے دیں۔ ان کا جواب تھا ”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے“۔ مسئلہ پوچھا تو ایک نوجوان نے جواب دیا ”ہوسٹلوں کی بجلی بند ہے انتظامیہ آئے گی تو ٹریفک چلنے دیں گے“۔ ایک سے وی سی صاحب کا موبائل نمبر لیا، بات کی۔ دوسری طرف یونیورسٹی کے آر او جاوید سمیع تھے۔ انہوں نے بتایا کہ فالٹ دور کر دیا گیا ہے اب بجلی کی سپلائی جاری ہے، میں ذرا دور ہوں چند منٹ میں سکیورٹی والے پہنچنے والے ہیں۔ جمعیت کا موقف تھا کہ آج کی بندش کی بات نہیں امتحان ہونے والے ہیں، بجلی اکثر بند رہتی ہے، انتظامیہ اس کا کچھ کرنے کی یقین دہانی کرائے۔ چند منٹ بعد واقعی پولیس آئی۔ اسے دیکھ کر نوجوانوں کے نعروں میں مزید گرمجوشی آگئی جس پر پولیس بھی فٹ پاتھ پر کھڑے لاچار تماشائی مسافروں کا حصہ بن گئی۔ ٹی وی کیمرے آئے تو نوجوانوں کی تعداد سو سے زائد ہو چکی تھی۔ میڈیا کو دیکھ کر گماں ہوتا تھا کہ نوجوان محاذ جنگ پر ہیں اب ہاتھ اوپر اٹھا کر نعرہ بازی دیدنی تھی۔ میڈیا نے اپنا کام کیا اور چلتے بنے۔ اب نہر کی دوسری جانب بھی ٹریفک جام کر دی گئی۔ یونیورسٹی کی جانب جانے والے تمام گیٹ بھی بند کر دیئے گئے۔ پونے چھ سے سوا سات بجے یک رنگ و ہم آہنگ دھمال میں زندہ ہے جمعیت زندہ کا نعرہ مستانہ گونجتا رہا۔ خدا بھلا کرے ایک بابا جی دس منٹ تک روئے پیٹے چیخے چلائے جس پر جمعیت کو ترس آیا لیکن اپنے ہی بچوں کی بات سننے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ نہ آئی۔
جب انتظامیہ کو ادراک ہی نہیں کہ اصل مسئلہ کیا، اس کا حل خاک نکلے گا؟ پنجاب یونیورسٹی چھوٹی چیز ہے نہ غریب ہے، حکومت تو بے حس ہے یونیورسٹی بے بس نہیں۔ اس کا الیکٹریسٹی کا کوئی متبادل بندوبست ہونا چاہئے۔ کلاسوں کیلئے تو عموماً جنریٹر موجود ہیں ہوسٹلوں میں لگائے جائیں۔ بچے بھی سمجھیں کہ اب عام آدمی کو پریشان کر کے مطالبات منوانا دانشمندی ہے نہ جرا ¿ت و بہادری۔ جہاں ٹریفک پولیس کی کارکردگی صفر رہی، اشارہ بند ہو تو ٹریفک رواں دواں رکھنے کیلئے میٹرک پاس سپاہی ہی کافی ہے۔ گریجوایٹ وارڈنز سے اچھی پلاننگ کی توقع کی جاتی ہے۔ سوا گھنٹہ ٹریفک رکی رہی ان کو ڈائی ورژن لگانے کے ساتھ ٹریفک ریورس کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔

No comments:

Post a Comment