منگل ، 21 جون ، 2011
بینظیر کی سالگرہ پر بینظیر تحفہ
فضل حسین اعوان
آج ہماری آزادی، خودداری، خودمختاری، عزت اور وقار سامراج اور استعمار کے سامنے گروی رکھا جا چکا ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ہمارا یہ تفاخر نیلام ہو چکا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہی ٹولہ جو کبھی آمریت کے بھیس میں اور کبھی جمہوریت کے فیس میں قوم و ملک پر مسلط ہو جاتا ہے۔ یہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کاوش کے بجائے انہیں صدقِ دل سے چوم کر گلے کا ہار بنا لیتا ہے۔ محض ذاتی مفادات، طوالت اقتدار اور مال و زر کے انبار کے لئے۔ رعایا پر کیا گزرتی ہے، اس کی کوئی فکر اور پروا نہیں۔ وطن فروش اور ضمیر بردوش اور کِسے کہتے ہیں۔ نوکریاں افسریاں اداروں کی سربراہی اور شاہی برائے فروخت۔ قوم نہیں بگڑی کچھ طبقات بگڑے ہیں۔ ان میں فنکارائیں اور فنکار ہیں جو اپنے جسم اور ادائیں بیچ دیتے ہیں۔ ریاکار عابد اور زاہد اپنی دعائیں بیچ دیتے ہیں۔ امریکیوں کا روئے سخن انسانوں کے بیوپاریوں، انسانیت کے سوداگروں، عزتوں اور لاشوں تک کے تاجروں کی طرف ہے کہ ڈالروں کے عوض یہ مائیں بھی بیچ دیتے ہیں۔ بلا امتیاز آمریت و جمہوریت بدنظمی، بدعملی اور بدچلنی کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ ظلمت کو ضیائ، صَرصَر کو صبا اور کرگش کو ہما کہا جا رہا ہے۔ لاقانونیت سی لاقانونیت ہے۔ ایک غدر مچا ہے۔ میرٹ کا جنازہ اُٹھ چکا۔ غربت کے ماروں کے لاشے اُٹھ رہے ہیں۔ پرائی جنگ میں وطن کے روئیں روئیں سے خون رس اور ٹپک رہا ہے۔ انصاف کی فراہمی کے رواں دریا کو گدلایا جا رہا ہے۔ عدالتیں بے لاگ فیصلے کرتی ہیں تو ان کو گنبدِ بے در میں پھینک دیا جاتا ہے۔ زمامِ اقتدار جن کے ہاتھ ہے ان کے ماضی کو کریدنے اور کھنگالنے کی ضرورت نہیں۔ اچٹتی اور سرسری نظر سے سب کچھ عیاں اور نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان کا بس چلے تو وطن کی ہوائیں فضائیں دن رات، دھوپ اور چھائیں بھی بیچ ڈالیں۔ آج ایک طرف امریکہ کی یلغار و پھنکار اور دوسری طرف ازلی دشمن بھارت کی للکار ہے۔ ایسے موقع پر ضرورت پوری قوم کے متحد ہونے کی ہے۔ قوم کو سیاستدان متحد کر سکتے ہیں لیکن وہ خود انتشار کا شکار ہیں۔ قومی ایشوز پر مفاداتی سیاست کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ ایٹمی اثاثوں کو خطرے کی بات سب کرتے ہیں۔ حفاظت پر متفق نہیں۔ امریکی جنگ کے نقصانات و مضمرات کو سب جانتے اور مانتے ہیں۔ اس سے نکلنے کی حکمت اپنانے پر تیار نہیں۔ نظریات میں اگر ہم آہنگی ہے تو اقتدار کی دوڑ میں شامل ہونے کی۔ مراعات میں اضافے کی، اقتدار کی تفویض اور طوالت کے لئے امریکہ کے سامنے سر جھکانے کی۔ انسان کو طاقت نہیں اس کی جرا ¿ت، اعلیٰ کردار اور حب الوطنی کے جذبات زندہ رکھتے ہیں.... آج پیپلز پارٹی اپنی شہید رہنما کی سالگرہ بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے منا رہی ہے۔ 1990 میں سی آئی اے، موساد اور را نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کی سازش تیار کی۔ پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں اس خبر نے بھونچال اُٹھا دیا۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کی میٹنگ بلائی جس کے فیصلے کے تناظر میں 23 جنوری 1990 کو وزیر خارجہ یعقوب علی خان کو اس پیغام کے ساتھ دہلی بھجوایا گیا ”پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کیا گیا تو ہم بھارت کے خلاف کارروائی کریں گے۔ حملہ خواہ کسی بھی جانب سے ہو“۔ جنرل اسلم بیگ نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم آئی کے گجرال نے وزیر خارجہ یعقوب علی خان کے دورے اور خصوصی پیغام لانے کا تذکرہ اپنی کتاب Matters of Discrition میں کیا ہے۔ اس پیغام کے بعد شیطانی اتحاد ثلاثہ کی تمام تر ابلیسی پلاننگ راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ آج حالات 90 کی نسبت کہیں زیادہ مخدوش و دگرگوں ہیں۔ کون ہے جو دعویٰ کر سکے کہ وہ محفوظ و مامون ہے۔ جیالوں کی بھٹوز سے محبت لازوال ہے۔ بات محترمہ کے جاں نشینوں کی ہے جن کی محترمہ کے خون کی ندی میں اقتدار کی بے منزل ناﺅ رواں دواں ہے۔ وہ ناﺅ کی روانی کی دوامی کی سعی جاری رکھیں۔ اس کی کوئی منزل تو طے کر لیں۔ اپنے آپ محترمہ جیسی جرا ¿ت پیدا کریں۔ اُن کے قاتل کے گریبان تک ہاتھ لے جانے میں شاید کوئی مصلحت ہو۔ ان کی سالگرہ کے موقع پر قوم کو غیرت وقار، خودداری اور خود مختاری کا تحفہ تو دیا جا سکتا ہے۔ پہلے اور حتمی اقدام کے طور پر امریکہ کو بڑے احترام کے ساتھ اس کی جنگ لوٹا دی جائے۔ یہی بینظیر کی سالگرہ پر قوم کے لئے بینظیر تحفہ ہو گا!
No comments:
Post a Comment