جمعرات ، 16 جون ، 2011
اب آتش تاثیر بھی
فضل حسین اعوان
1999ءکو جولائی کے شروع میں واشنگٹن پوسٹ، یو ایس اے ٹو ڈے، دی ٹائمز لندن اور ایک دو دیگر جرائد نےThe Army of Pakistan is a Rogue Army( بدمعاش پاکستانی فوج) کے عنوان سے فل پیج کا اشتہار شائع کیا۔ یہ وہ دورہ تھا جب کارگل کی مہم جوئی کے بعد سیاسی اور عسکری قیادتوںکے مابین سردجنگ جاری تھی۔وزیراعظم میاں نواز شریف سانحہ کارگل پر اپنے حلقہ یاراں میں کھسر پُھسر تو کر رہے تھے لیکن آرمی چیف جنرل مشرف کے خلاف ایکشن لیا نہ کمیشن بنانے کی ایسی گرم جوشی نظر آئی جیسی ایبٹ آباد میں امریکی اپریشن پرکمیشن تشکیل دینے کے حوالے سے اب دکھا رہے ہیں۔ دنیا کے معروف جرائد میں پاک فوج کےخلاف اشتہار شائع ہوا تو کچھ پاکستانی مہربانوں نے مخصوص حالات ،نواز شریف کے جرنیلوں کے ساتھ سرد اور زرد تعلقات کے پیشِ نظر مسلم لیگ ن کی ہیوی مینڈیٹ کی حامل حکومت کے کھاتے میں ڈالا لیکن عقدہ کھلا کہ یہ اشتہار بھارت کی غیر سیاسی شخصیت آروی پنڈت نے وزیراعظم اٹل بہار واجپائی کو اعتماد میں لیکر شائع کرایا پنڈت کے بقول اس معاملے سے ایل کے ایڈوانی،جسونت سنگھ اور برجیش مشرا بھی آگاہ تھے۔ واجپائی نے آر وی پنڈت کو تاکید کی کہ اس میں بھارتی حکومت کا نام نہیں آنا چاہئے ۔ (Panditrv.com پرتفصیلات موجود ہیں)۔ اب آتش تاثیر نے بھی پاک فوج کے بارے میں وہی زبان استعمال کی جو بھارت نے 12 سال قبل استعمال کی تھی۔ آتش تاثیر، سلمان تاثیر کا تلوین سنگھ کے بطن سے چند روزہ رومانس کا ”تحفہ“ ہے۔ غیر منکوحہ تلوین نے نومولود کو کوڑے کے ڈھیر پرپھینکنے کے بجائے پال پوس کر اس کے باپ کے مقابل لا کھڑا کیا جواب پاک فوج کے مقابل آکر اسے بدمعاش فوج قرار دے رہا ہے۔آتش نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آبادمیں پاک فوج کا مہمان تھا۔جو آتش نے اسامہ کے بارے میں کہا امریکی بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کی وزارتِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ہلیری نے آئی ایس آئی کو کلین چٹ نہیں دی۔ ہلیری اور مولن پاک سرزمین پر کھڑے ہوکر کہہ گئے کہ حکومتی سطح پر ایبٹ آباد میں کسی کو اسامہ کی موجودگی کا علم نہیں تھا لیکن کچھ لوگوںکو ضرور علم تھا۔ حکومت ان کے بارے میں آگاہ کرے۔ میاں نواز شریف ایک بات بار با ر دھمکیوں کے ساتھ دہرا رہے ہیں کمشن تشکیل دیاجائے۔ ایبٹ آباد اپریشن کے ذمے داروں کو جانا ہوگا۔ ایبٹ آباد اپریشن کے حوالے سے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا قوم سے معافی مانگ چکے ہیں انہوں نے خود کو پارلیمنٹ کے سامنے سرنڈ ر کردیا تھا۔ میاں صاحب مجوزہ کمشن سے کیا چاہتے ہیں کہ میاں صاحب کو جن جرنیلوں کی شکلیں پسند نہیںاور جو امریکی مطالبات اور ڈومور کے تقاضوں کی کچھ مزاحمت کررہے ہیں ان کو پھانسی لگا دیا جائے؟ امریکہ پھانسی تو نہیں شمالی وزیرستان میں اپریشن کی راہ میں رکاوٹ بننے والے جرنیلوں صے خلاصی ضرور چاہتا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ کمشن کی تشکیل کیلئے اضطراب میاں صاحب کے اندر کی آواز ہے۔ جو میاں صاحب کے ساتھیوںکو آٹو میٹک چڑھ گئی۔ میاں نواز شریف کی مشرف کے متبادل چوائس جنرل ضیاءالدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو مشرف نے امریکہ سے ڈالر بٹورنے کیلئے چھپا رکھا تھا۔ وہ ڈی جی، آئی ایس آئی رہے ان کی بات کو عالمی سطح پر بے وزن قرار نہیںدیاجاسکتا ۔سوال اٹھتا ہے کہ اسامہ کو اگر مشرف نے چھپایا تھا تو جاتے ہوئے جیب میں رکھ کر ساتھ تو نہیں لے گئے کسی کے حوالے تو کر کے گئے ہوں گے۔ کس کے حوالے کرگئے اس کا جواب جنرل(ر) ضیاءالدین دیں۔ جنرل صاحب نے ایسا کسی کو خوش کرنے کیلئے کیا یا بے وقوفی میں اپنے اس ادارے کو بد نام کردیا جس کی سربراہی ہاتھ میں آکر ان کی اپنی ”بد “تدبیری اور بے حکمتی کی وجہ سے مچھلی کی طرح پھسل گئی۔
آج فوج کو امریکہ اور بھارت کی طرف سے شدید الزامات کا سامنا ہے۔ انہی کے کچھ مہرے یہاں بھی دشمن کی بولیاں بول رہے ہیں۔تنقید، الزام اور دشنام میں فرق ہے۔ ایبٹ آباد اپریشن اور سانحہ مہران بیس سے فوج کی غفلت اور کوتاہی کُھل کر سامنے آگئی۔ایبٹ آباد اپریشن پر فوج نے قوم سے معافی مانگ لی۔یہ باب یہیں بند ہوجاتا ہے۔جن لوگوں کو اس کے باوجود تحفظات ہیں وہ جنرل جاوید اقبال کی سربراہی میں حکومت کی طر ف سے قائم کی گئی کمیٹی کی رپورٹ سے دور ہوجائیں گے۔ ایف سی نے جو کچھ خروٹ آباد،رینجرز نے کراچی میں کیا انٹی نارکوٹیکس میں تعینات دو میجروں کو ایک نوجوان کی زیر حراست ہلاکت پر گوجرانوالہ سیشن کورٹ نے گرفتار کرایا تو وہ فرار ہوگئے۔ ایسے واقعات کو کچھ لوگ فوج کی بد معاشی کے زمرے میں لاتے ہیں۔ میڈیا میں فوج کی طرف سے پولیس اہلکاروں کو پھینٹی کے واقعات بھی دیکھتے سننے اور پڑھنے میں آتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی کسی سطح پر ستائش نہیں کی جاسکتی لیکن ان واقعات کو پوری فوج کے کردارپر منطبق نہیں کیاجاسکتا دس لاکھ فوجیوں میں سے چند سو اگر کالی بھیڑیں ہیں ان سے فوج کو پاک کردیناچاہئے۔ کراچی سانحہ میں ڈی جی رینجرز کو ہٹا دیا گیا۔ مفرور میجر بھی پکڑ لئے گئے فوج سے ایسے ہی کردار کی توقع ہے۔ ایسے اقدامات سے فوج کو دشنام دینے والوں کی تسلی ہوجانی چاہئے مزید یہ کہ فوج خود کو عوامی معاملات سے الگ تھلگ کرلے۔ ایف سی اور رینجرز کا جو کام ہے وہ کرے۔ قانون نافذ کرنا پولیس کا کام ہے۔ جرنیل حضرات اپنے پروفیشن تک محدود رہیں۔ جائیدادوں اور کاروبار کرنے کی کہانیاں میڈیا میں آنے پر نقادوں کو کروڑ کمانڈر کہنے کا موقع ملا۔ فوج کا اصل کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے ان سرحدوں کو اگرکوئی اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا دماغ درست کرنا بھی فوج کی ذمہ داری میں ہی آتا ہے۔ غدار کی کوئی معافی نہیں، وہ جرنیل ہو، جج ہو سیاستدان یا صحافی۔ ملک دشمنوں کااسی طرح دماغ درست ہونا چاہئے جیسے رحمن ملک کا ڈاکٹر قدیر خان نے فوج سے کرایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی زبانی سنیئے ”میں رحمان ملک کو تقریباً پندرہ برس سے بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے خاندانی پس منظر سے بھی پوری طرح واقف ہوں۔ جب انہوں نے پیٹھ پیچھے سازش کی اور عدالت سے مجھ پر پابندیاں لگوائیں تو مجھے تعجب نہیںہوا۔ پندرہ سال پیشتر یہ جب ایڈیشنل ڈی جی ،ایف آئی اے تھے اور میرے داماد اور اسکے بھائی( ایڈمرل ضمیر احمد مرحوم کے صاحبزادے) کو بلیک میل کررہے تھے تو میں نے جنرل عبدالوحید کاکڑ(جو میرے داماد کی والدہ کے عزیز ہیں) اور ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل نسیم رانا سے ان کا دماغ ٹھیک کرادیا تھا۔“ ٹھیک ہے، رحمن ملک کا دماغ درست ہوا لیکن کیا یہ فوج اور آئی ایس آئی کے کرنے کا کام تھا؟ آئی ایس آئی اس پرہاتھ ڈالے جس کی ملک دشمنی مسلمہ ثابت ہوجائے۔شکوک اور سفارش کی بنیاد پر نہیں۔
No comments:
Post a Comment