About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, June 23, 2011

ترقی و خوشحالی کا انقلابی منصوبہ اور نسخہ کیمیا

جمعرات ، 23 جون ، 2011


ترقی و خوشحالی کا انقلابی منصوبہ اور نسخہ کیمیا
فضل حسین اعوان
پاکستان کو خوشحال بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کا کامل منصوبہ اور نسخہ کیمیا وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھ آگیا۔ اس منصوبے پر فوری طور پر عمل اور نسخہ کیمیا کا بڑی دانشوری سے استعمال بھی شروع کر دیا۔ اب چند دن کی بات ہے ہر پاکستانی کے سر سے غربت کے بادل چھٹ جائیں گے۔ پریشانیوں کے سائے ہٹ جائیں گے۔ وزیراعظم کے انقلابی اعلان اور جادوئی فرمان پر عمل کے ساتھ ہی رحمت کی برکھا برسنے لگے گی۔ غم خوشیوں میں ڈھل جائیں گے۔ نامہرباں مہربانوں میں بدل جائیں گے۔ ستم شعاروں کے ستم ان کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔ ستم رسیدوں کی آہیں اور سسکیاں نقرئی قہقوں کا روپ دھار لیں گی۔ ہر انسان پر زمیں مہرباں ہو گی آسماں مہرباں ہو گا۔ دھرتی جگ مگ کرکے جھلملاتی نظر آئے گی۔ آسمان سے نور برسے گا۔ بدلیاں تک نغمہ زن ہو جائیں اور شاعروں کو اپنی محبوبہ یاد آجائے تو ان کے پاس یہ دہرانے کے سوا چارہ نہ رہے۔ 
گنگناتی ہوئی فلک سے آتی ہیں بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے
اب وزیراعظم کا اعلان اور فرمان ملاحظہ فرما لیجئے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ کابینہ کے خصوصی اجلاس میں واپڈا اور پیپکو اور دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی‘ پی آئی اے ملازمین کو فری ٹکٹ‘ پی ٹی سی ایل ملازمین کو فری کالز اور سوئی گیس ملازمین کو مفت گیس کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر فوری عملدرآمد کیا جائے گا۔ حکومت نے یہ اقدام مالی بحران کو کم کرنے کے لئے کیا ہے۔ دیکھئے اس سے حکومت کو کتنی بچت ہوتی ہے اور ملک معاشی بحران پر کس حد تک قابو پا سکتا ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ حکومت کی طرف سے دی گئی سہولتوں کا اکثر ملازمین بری بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔ واپڈا اور پیپکو ملازمین کو فری یونٹس کی مد میں 3 ہزار یونٹس سے 30 ہزار یونٹس تک سالانہ دئیے جاتے رہے ہیں۔ پی آئی اے ملازمین کو تین‘ ان کے بچوں کو ایک انٹرنیشنل اور 2 ڈومیسٹک ٹکٹ مفت ملتے تھے‘ پی ٹی سی ایل ملازمین کو 700 تک کالز فری تھیں جبکہ سوئی گیس کمپنی کے چھوٹے ملازمین کو 8 سے 9 ہزار روپے کا گیس کا بل فری تھا۔ 
واپڈا ملازمین اپنی سہولتیں ختم ہونے کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ ہڑتالوں‘ مظاہروں تالا بندیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں گرڈ سٹیشنوں کی بجلی بند کر دینے کی دھمکی دی۔ گویا لوڈشیڈنگ کے ستم سے جو بجلی بچ نکلتی ہے۔ وہ مظلوم ملازمین کے جبر کا نشانہ بن جائے گی۔ پتھر کا دور ہو گا چند دن بعد۔ بجلی کے محکمے میں سب کرپٹ نہیں ایمان دار اور دیانت دار لوگ بھی یقیناً ہیں لیکن جن کے ساتھ عام آدمی کا ”واہ“ پڑتا ہے ان کی اکثریت ایسی ہے جیسا ان کے بارے میں عمومی تاثر ہے۔ اہلکاروں کی مرضی کے بغیر بجلی چوری نہیں ہو سکتی۔ میٹروں کو ریورس گیئر نہیں لگ سکتا۔ میڈیا میں خبریں چلتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ ملازم نے کئی گھروں کو اپنے میٹر سے بجلی فراہم کر رکھی تھی۔ عموماً ریلوے ملازم کے رشتے دار اور واقف کار بھی اس کے ووچر پر فری سفر کرتے ہیں ریلوے کی طرح پی آئی اے کے دیوالیہ پن کی وجوہات میں ملازمین کی ہیرا پھیریاں بھی شامل ہیں۔ سوئی گیس ملازمین کے خلاف شکایات نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن ان کو بھی زمانے کی ہوا لگ گئی ہے۔ بلاشبہ حکومت کا ایسی سہولتیں ختم کرنے کا فیصلہ اطمینان بخش ہے جن کا کچھ لوگ غلط اور بے جا استعمال کر رہے تھے۔ اب کچھ لوگوں کی بے ایمانی کا خمیازہ ایماندار ملازمین کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کے پیش نظر اگر واقعی سہولتوں کا غلط استعمال ہو رہا تھا تو ملازمین کو بجلی کے یونٹوں پی آئی اے ریلوے کی ٹکٹوں کی صورت میں جو سہولت دی جاتی تھی اس کے برابر الاونس دے دیا جائے۔ اس میں یونٹوں اور کرایوں میں اضافے کے برابر اضافہ ہوتا رہے۔ اس تجویز سے ایماندار افسروں اور اہلکاروں کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ 
وزیراعظم کے اس اقدام سے مذکورہ محکموں کے اندر پائی جانے والی بے ضابطگیاں کسی حد تک کنٹرول ہو جائیں گی لیکن اس کا ملک کے مالی بحران پر کسی قسم کا مثبت اثر نہیں پڑنے والا۔ مالی اور معاشی بحران صرف اور صرف ان کے خاتمے کی کمٹمنٹ اور نیک نیتی سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں وزیراعظم ہاوس‘ ایوان صدر وزیروں مشیروں اور بیورو کریسی کے اخراجات کتنے کم کئے گئے ہیں؟ 100 رکنی کابینہ ایک چوتھائی کرکے بچت کی گئی پھر اس میں ق لیگ اور ایم کیو ایم کو شامل کرکے خزانے پر پھر بوجھ بڑھا دیا گیا۔ ان پارٹیوں کے جتنے وزیر بنائے اپنی پارٹی کے اتنے فارغ کر دئیے جانے چاہئیں تھے۔ غیر ملکی دورے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ اور کبھی 100افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وزیر‘ مشیر گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرتے ہیں۔ جو سہولتیں واپڈا‘ پی ٹی سی ایل‘ سوئی گیس کمپنی‘ پی آئی اے اور ریلوے ملازمین سے واپس لی گئی۔ ان پر صدر وزیراعظم‘ گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ‘ وزیروں مشیروں اور عوامی نمائندوں کا بھی کوئی استحقاق نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی رضاکارانہ ان سہولتوں سے دستبردار ہو جائیں۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ 58 ارب ڈالر جبکہ پاکستانیوں کے بیرون ممالک اثاثوں کی مالیت 80ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اگر یہ اثاثے وطن لائے جائیں ساتھ ملکی وسائل بھی بروئے کار لائے جائیں تو بلاشبہ ملک خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ یہی وطن کو خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کا انقلابی منصوبہ اور نسخہ کیمیا ہے۔



No comments:

Post a Comment