منگل ، 28 جون ، 2011
اتحاد....اتفاق ....اور انقلاب
فضل حسین اعوان
صلیب اور ہلال کے مابین معرکہ آرائی اور پنجہ آزمائی صدیوں پر محیط ہے۔ صلیبی جنگیں ہمیشہ مسلم و نصا ریٰ کے درمیان لڑی گئیں۔ آج لڑی جانیوالی جنگ میں ہنود و یہود صلیبیوں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔ آج کی صلیبی جنگ یقینا معرکہ حق و باطل ہے۔ ہم نے سن رکھا ہے۔ مشاہدہ بھی ہے اور اپنے اسلاف کا تجربہ بھی، کہ حق ہمیشہ باطل پر غالب رہا لیکن موجودہ حالات میں ممکن نہیں کہ تاریخ خود کو دہرا دے۔ اس لئے نہیں کہ باطل طاقت ور ہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ طاغوتی شیطانی اور ابلیسی قوتیں متحد ہو گئی ہیں۔ اس لئے کہ اہل اسلام بھی صلیبیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ ایک پنجابی ڈائیلاگ بڑا مشہورہوا تھا ۔ ”مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا“۔ بالکل ایسے ہی مسلمان کو مسلمان نہ مارے تو مسلمان بھی نہیں مرتا۔ صلیبیوں کا ساتھ دینے والوں کو آپ منافق کہیں، غدار، دین فروش، ملت فروش یا وطن فروش اس سے فرق نہیں پڑتا حقیقت اور اٹل حقیقت یہی ہے کہ اکثر اسلامی ممالک کے حکمران معرکہ حق و باطل میں حق کے ساتھ نہیں ہیں۔ سامراج و استعمار نے عراق، افغانستان کو ملیا میٹ کیا۔ پاکستان کی تباہی اور لیبیا کی تا راجی جاری ہے۔ دنیا میں قیا م امن، جمہوریت کے فروغ اور آمریتوں کے خاتمے کے دعویداروں، علمبرداروں اور تھانیداروں کو قبرص، شمالی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی آبادی کے انسانی حقوق تو یاد آ گئے۔ فلسطین میں یہود، کشمیر میں ہنود کی بربریت اور سفاکیت کی پروا نہیں۔ یہاں ہر روز انسانیت بلکتی اور سسکتی ہے۔آج اسلام اور اہل اسلام مشقِ ستم ہیںرسول اللہ کے خاکے بنا کر، قرآن جلا کر اور فاطمہ و زینب کے حجاب و نقاب اوڑھنے پر پابندیاں لگا کر ہمارے قلب و جگر شق کئے جا رہے۔ اہل ایمان کو مشکلات، مصائب، آلام اور ظلم و جبر کی چکی میں پستے دیکھ کر دل پھٹتا اور جگر کھٹتا ہے۔ عالم اسلام میں اتفاق کے بجائے انتشار اور نفاق پر دل کُڑھتا ہے۔ مسلمان ایک ہو جائیں۔ اقوام متحدہ کی طرز پر اسلامی اقوامِ متحدہ بنا لیں۔ یورپی یونین کی طرز پر یونین ترتیب دیں لیں۔ جی ٹونٹی، ڈی ایٹ شنگھائی اور سارک تنظیم جیسے پلیٹ فارم کی تشکیل کر لیں تو غیروں کی غلامی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسلام پھر سے سپر پاور بن سکتا ہے۔ ضرورت اہل اسلام میں اتحاد و اتفاق کی ہے۔ہم عالمی سطح پر اسلامی ممالک کے اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ ہم خود بطور خاندان، معاشرہ، مذہبی اور سیاسی حوالے سے کتنے متحد ہیں؟ فرقہ ورایت اور سیاسی عدم برداشت معاشرے میں ناسور کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ مملکت خدا داد پاکستان لااِلہ الااللہ کے نام پر حاصل کی گئی تھی۔ عام آدمی کی حسرت اور تمنا ہے کہ اس میں لااِللہ کا ہی دور دورہ ہو۔ 1997ءمیں نظام مصطفی تحریک اور 2002ءکے انتخابات سے قبل مجلس عمل کے قیام سے نفاذ اسلام کی کرن نوید سے نومید دلوں میں ایک روشنی ہی پھوٹی لیکن حتمی نتیجہ ظلمت اور تاریکی کے سائے کی صورت میں سامنے آیا۔ ہمارے ہاں مذہبی عدم برداشت انتہا پر ہے جو فرقے اور مسالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہیں تھے وہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر آئے تو ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہو گئے۔ یہ مذہبی رواداری کا عروج تھا لیکن پھر بکھر گئی مجلس عمل۔ حضرت مولانا فضل الرحمن امریکہ کی اشیر باد سے سولو فلائٹ کی کوشش کر چکے ہیں۔ امریکہ ان کو اقتدار دلا بھی دیتا ہے تو ان کے مخصوص خاندانی مسلکی اور سیاسی پس منظر کے باعث وہ اکثریتی آبادی کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتے لیکن مجلس کے پلیٹ فارم پر بسم اللہ۔ آج سب سے زیادہ ٹکڑوں میں مسلم لیگ بٹی ہوئی ہے۔ اس کے بعد مذہبی جماعتیںمسلم لیگیں متحدہ ہونی چاہئیں۔ مذہبی جماعتوں کا ایک دوسری کے ساتھ اور خود ہر مذہبی جماعت کے اندر بھی اتحادہونا چاہیے۔ گزشتہ روز مولانا سمیع الحق لاہور میں تھے۔ وہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کا ذمہ دار ثبوتوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کو ٹھہرا رہے تھے۔ بکھری ہوئی مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ان کو جو تلخ تجربات ہوئے وہ دہرانے پر آمادہ نہیں لیکن ان کے پاس مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا کوئی اور نسخہ بھی نہیں۔ بہتر ہے کہ وہ پھر سے کڑوا گھونٹ بھریں۔ حضرت مولانا سمیع الحق دل بڑا کریں جمعیت کے اتحاد کی پہلی اینٹ رکھیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کو جو وہ چاہتے ہیں دے دیں۔ منبرو محراب کی طرہ داری، خلعت، جبہ ودستار کی وضعداری، مساجد کی بھی خدمت گاری، مدارس کی سرداری، ڈیزل کے دو چار ٹینکر اور اپنے پاس جمع شدہ ریز گاری۔ پھر مجلس عمل کو بحال کریں۔ ہر پارٹی ایثار کا جذبہ لے کر اتحاد میں شامل ہو تو اتحاد بھی یقینی جیت اور اقتدار بھی یقینی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن اخلاص کا دامن تھام لیں، دیگر جماعتوں کے ایثار کی طرح۔ قائد اعظم کے پاکستان نے ان کو سب کچھ دیا۔ اس میں سے کچھ تو لوٹا دیں۔ پیسوں کی صورت میں نہیں۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کی جدوجہد کی صورت میں۔ آزادی کشمیر کے لئے بے باکانہ کردار کی صورت میں۔ تو پاکستان میں انقلاب آ سکتا ہے سبز انقلاب اور اسلامی انقلاب، جس کا خواب حضرت قائد اعظم نے دیکھا تھا۔ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کا!
No comments:
Post a Comment