2--6--2011
فضل حسین اعوان
امریکی جنگ کا رخ پاکستان کی طرف
امریکہ کیلئے کہیں طوفان اٹھانا یا تلاطم خیز اور سرکش موجوں کو ٹھہرانا مقصود تو اس کےلئے منصوبہ بندی کے بعد باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے جس میں جہاں میڈیا ہراول دستہ ہوتا ہے۔ وہیں حکومتی و اپوزیشن ارکان کانگرس و سینٹ‘ سابق اسسٹنٹ سیکرٹری سے صدر تک‘ ریٹائرڈ جرنیل اور سفارتکار بھی پیچھے نہیں رہتے۔ افغانستان میں جنگ کا الا ¶ دہکانہ مطلوب تھا تو میڈیا نے دیو کی آمد سے قبل آندھی اور بارش کا اہتمام کر دیا۔ اب شعلوں کو بجھانا مقصود ہے تو امریکی میڈیا اور سابق حکومتی شخصیات اور سفارتکار اس مشن کے ساتھ سامنے آچکے ہیں۔ دنیا میں امریکی میڈیا کی غیر جانبداری کا عمومی تاثر پایا جاتا ہے۔ دراصل اس کی غیر جانبداری بھی جانبداری پر مبنی ہوتی ہے۔ بڑی سے بڑی خبر ملکی مفادات کے منافی ہو تو ہرگز باہر نہیں آنے دی جاتی۔ ملکی مفاد کے پیش نظر بے بنیاد اور لغو سٹوریاں بھی نشر اور شائع کر دی جاتی ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن کی امریکی میڈیا میں کہیں نہ کہیں ”سن گُن“ ضرور تھی لیکن مکمل سکوت طاری رہا۔ اسامہ کا مبینہ قتل اور نعش کو سپرد آب کرنا ابہام اور شکوک و شبہات کی ایک پٹاری ہے۔ امریکی میڈیا اسے کھولنے پر تیار نہیں۔ ہمارے ہاں غیر جانبداری ثابت کرنے کے خبط اور دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ نے ملکی مفاد کو ثانوی درجے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایسے میں کسی ضابطہ اخلاق قانون قوائد اور ضوابط کی نہیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں امریکہ شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔ اب وہ باعزت واپسی کے راستے کی تلاش میں ہے پہلے اقدام کے طور پر اس نے افغانستان سے انخلا کا جواز اسامہ کے قتل کا ڈرامہ رچا کر پیدا کر دیا۔ مزید اہتمام اس کا میڈیا اور دیگر لوگ کر رہے ہیں۔ نیوز ویک نے اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے۔ ”امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں عسکریت پسندوں سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتے‘ افغانستان میں پائیدار امن اور گریٹ گیم کے اگلے را ¶نڈ سے بچنے کا واحد راستہ طالبان سے مذاکرات ہیں۔ صدر بارک اوباما نے آنجہانی رچرڈ ہالبروک کے الفاظ کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہم غلط ملک میں غلط دشمن پر حملہ کر ہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی بہت سی جنگوں کا خاتمہ مذاکرات سے ہی ہوا ہے اور صدر اوباما نے آخرکار یہ اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں 10 سال سے جاری جنگ ہر صورت ختم ہونی چاہئے۔ طالبان کا مغرب کے ساتھ صرف اس بات پر جھگڑا ہے کہ ان کے وطن میں ہماری افواج کی موجودگی ہے۔“
آنجہانی ہالبروک سے قبل امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز نے دو سال قبل امریکی جنگی جنونیوں پر واضح کر دیا تھا کہ ”افغانستان کے سنگین مسائل کا حل فوج کی مدد سے نہیں نکالا جا سکتا۔ مگر افغانستان میں دو لاکھ فوجی بھی تعینات کر دئیے جائیں تو یہ تمام کو نگل جائے گا۔ افغانستان سے انخلا میں ہی امریکہ کی خیر ہے۔“ اس خطے میں امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے باعث اپنی موجودگی ضروری خیال کرتا ہے۔ سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے مشورہ دیا ہے کہ چین سے ڈرنے کے بجائے اسے سمجھنا چاہئے۔ اس مطلب کو اس خطے میں محض چین کے خوف سے امریکہ کی موجودگی ناگزیر نہیں ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرس فوگ راسموسین نے کہا ہے کہ طالبان مضبوط ہیں ابھی افغانستان سے انخلا نہیں کر سکتے۔ اگر دس سال میں 40 ممالک جدید اسلحہ کے زور پر‘ افغانستان کے چپے چپے پر بم برسا کر بھی طالبان کو کمزور نہیں کر سکے تو ایسا کرنے کےلئے مزید کتنا عرصہ درکار ہے؟ طالبان کی مضبوطی ہی امریکہ کو ان سے مذاکرات پر مجبور کرتی ہے۔ یہ مذاکرات ہو بھی رہے ہیں۔ نیوز ویک کے ذریعے امریکی پالیسی یہ سامنے آتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات اور القاعدہ کا تعاقب کیا جائے۔ یعنی القاعدہ کی تلاش میں امریکہ افغانستان سے جہاں چاہے اپنی جنگ لے جائے۔ اسے پوری دنیا میں پاکستان میں ہی القاعدہ کے ٹھکانے نظر آتے ہیں۔ ادھر بھارت نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے 42 تربیتی کیمپ ہیں۔ کرزئی کی خباثت ملاحظہ فرمائیے۔ ”نیٹو افواج قابض فورس بنتی جا رہی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان میں لڑی جائے۔“ پاکستان کو دونوں طرف سے خطرہ ہے۔ ایک طرف ازلی دشمن دوسری طرف دوست کے بہروپ میں دشمن‘ جو کھلے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اب اس ”دوست“ کا ایجنڈہ کوئی مخفی نہیں رہ گیا۔ امریکہ کی جنگ کا رخ اب تیزی سے پاکستان کی طرف ہو رہا ہے۔ اگر سب دشمن اور بدخواہ کرزئی پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتے تو پاکستان کو اس کی مکمل تیاری کر لینی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ کرزئی کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ پاکستان کو ظاہر شاہ سے لیکر ”قرضی ¿“ تک افغانستان سے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی۔ ازلی دشمن بھارت کی دشمنی تو بجا۔ بھارت ماتا کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ لیکن پاکستان کے قیام سے افغانستان کو کیا نقصان پہنچا؟
No comments:
Post a Comment