منگل ، 26 جولائی ، 2011
وسائل مسائل کا حل!
فضل حسین اعوان
77 لاکھ کی آبادی کا چھوٹا سا ملک سوئٹزرلینڈ دنیا کے چند امیر ترین، ترقی یافتہ اور خوشحال ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی زمینیں سونا اگلتی ہیں نہ پہاڑوں کے دامن معدنیات سے پُر ہیں۔ قدرتی وسائل سے تہی ملک کے لوگوں نے اپنی محنت، فہم و فراست اور عزم و ارادے سے سوئٹزرلینڈ کو خوبصورت و خوب تر بنا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ سوئٹزرلینڈ کے اردگرد فرانس، اٹلی، جرمنی اور آسٹریا ہیں۔ یہ چاروں ممالک پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کا مرکز و محور رہے۔ لیکن سوئٹزرلینڈ جنگ سے محفوظ رہا۔ وجہ یہ رہی کہ جنگ لڑنے والے ممالک کا سرمایہ جہاں محفوظ تھا۔ جہد مسلسل اور عمل پیہم سے پہاڑوں اور دشت و بیابانوں کو سبزہ زاروں اور گلشن و گلزاروں میں بدل دیا پورے ملک میں ایک انچ جگہ بھی پھولوں پودوں اور سبزے سے خالی نہیں ہے۔ آج سیاحت سوئٹزرلینڈ کی سب سے بڑی صنعت ہے۔
پاکستان وسائل سے بھرپور ملک اور حسین و دلنشیں مواقع کی نشانِ خلدِ بریں سرزمین ہے۔ قدرتی وسائل اپنی جگہ، اس کا محلِ وقوع قدرت کی نُدرت اور فطرت کا عظیم اور حسین شاہکار ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ ان علاقوں کے ممالک چین، افغانستان، ایران اور روس سے آزاد ہونیوالی بہت سی ریاستوں کے دروازے پاکستان میں کھلتے ہیں۔ پاکستان کے اس منفرد محلِ وقوع کے باعث اس کی علاقائی، عالمی، دفاعی، معاشی ثقافتی اور سب سے بڑھ کر تجارتی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چین دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں میں سرفہرست ہے۔ اسے مشرقِِ وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ تجارت کے لئے ہانگ کانگ کی بندرگاہ کے ذریعے سمندروں کا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ شاہراہِ ریشم اور ریلوے ٹریک کے ذریعے گوادر بندرگاہ اور وہاں سے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ممالک تک چین کا سامان ہفتوں کے بجائے چند دن میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ آپکی خوش فہمی ہے بنیا کبھی نہیں کریگا وہ ہمیں فیل سٹیٹ دیکھنا چاہتا ہے خوشحال کامیاب نہیں! روس عرصہ سے گرم پانیوں تک رسائی کا تمنائی ہے۔ روس کے ساتھ ساتھ اس سے آزادی حاصل کرنیوالی مسلم ریاستوں کے لئے گوادر بندرگاہ دنیا کے ساتھ تجارت کے مزید اور آسان در کھول سکتی ہے۔ تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل سے مالامال افغانستان، سنٹرل ایشیئن ریاستیں جغرافیائی طور پر تالہ بندی (Land locked) کی کیفیت میں ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی تھوڑی سی توجہ سے پاکستان ان کے لئے تجارتی و کاروباری جنکشن بن سکتا ہے۔ سونا اگلتی زمین کی طرف ہی توجہ دی جائے تو پاکستان کی معیشت دنیا کی مضبوط معیشتوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے تو پہاڑوں اور ریگزاروں تک کو سبزہ زاروں میں بدل دیا ہمارے ہاں آدھی سے زیادہ اراضی آج بھی بے آباد پڑی ہے جو آباد ہے۔ اس پر کاشتکاری کی لاگت اتنی کر دی گئی ہے کہ زمینیں کفالت کے بجائے چھوٹے کسانوں کو کھانے کو دوڑتی ہیں۔ معدنی وسائل کو استعمال کر کے بھی ہم غربت کو امارت میں بدل سکتے ہیں۔ صرف سونے کے ذخائر سے استفادہ کر لیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ کوئلہ کے ذخائر کی مالیت سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ہے۔ پھر تیل گیس لوہا کرومائیٹ، جپسم، نمک، چونے کا پتھر، سنگ سرخ سنگ سبز و مرمر لعل و یاقوت سمیت کیا کچھ دھرتی کے آنگن، سمندروں اور پہاڑوں کے دامن میں موجود نہیں۔ یقیناً ان وسائل سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ثمرات ہر پاکستانی تک نہیں پہنچ رہے۔ جو ان پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں ان کے وارے نیارے۔ ان سے محروم رہنے والے درد کے مارے ہیں۔ ایک طرف وسائل لوٹنے والوں کے بنک تک بھرے ہوئے ہیں دوسری طرف ایک بڑی آبادی پیٹ کا دوزخ بھرنے سے بھی قاصر ہے۔ ایک سوئس بنک ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ سوئس بنکوں میں پاکستانی امراءکے 97 ارب ڈالر جمع ہیں۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے جس سے پاکستان کا تیس سال کے لئے ٹیکس فری بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے 6 کروڑ پاکستانیوں کے لئے ملازمتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ پانچ سو سال تک پورے ملک میں مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہر پاکستانی کو 60 سال تک 20 ہزار روپے وظیفہ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام تر قرضے آسانی سے اتارے جا سکتے ہیں۔ آج ایک طرف ملک کی بڑی آبادی نانِ جویں کے لئے ترس رہی ہے دوسری طرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کے طرز شاہانہ اور انداز خسروانہ ہیں۔
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
کی تصویر بنے لوگ اس پر کڑھتے اور ان کو اپنی لاچارگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جب ان کے خون پسینے کی کمائی نوٹوں میں بدل کر بڑوں کے اکا ¶نٹس میں بھر جائے گی تو بددعائیں تو نکلیں گی لیکن چونکہ ہمارے اعمال ایک جیسے ہیں اس لئے دعائیں اور بدعائیں شاید راستے میں ہی کہیں بھٹک جاتی ہیں۔ اگر آج بھی لوٹ مار کے دربند ہو جائیں۔ وسائل کا صحیح استعمال ہو، پاکستان کے محل وقوع کا فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان یقیناً راتوں رات بغیر جادو کی چھڑی، الہ دین کے چراغ اور گیڈر سنگھی کے خوشحال ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہمارے تمام تر مسائل کا حل ہمارے وسائل میں ہے۔ صرف کرپشن کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا تو سونے کے پہاڑ بھی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتے اور صرف یہی نہیں ملک چلانے کے لئے اگلے الیکشن میں ووٹر اچھے پڑھے لکھے ایماندار نمائندے منتخب کریں جو بہت مشکل کام ہے۔
No comments:
Post a Comment