منگل ، 19 جولائی ، 2011
کرپشن آخر کہاں پہ ختم
فضل حسین اعوان
میاں نوازشریف وفد کے ساتھ چین کے دورے پر گئے۔ جہاز میں دیسی اور روایتی کھانوں کی محفل جمی رہی۔ عملے نے سب کی خدمت میں سری پائے کے پیالے پیش کئے۔ اس کے بعد ہریسہ، نہاری، حلیم، تکے کباب اور دیگر لوازمات سے تواضع کی۔ آخر میں لسی کے جام لنڈھائے گئے۔ پیٹ ایسی نعمتوں سے گردن تک فل ہو تو نیند اپنی بانہوں میں کیوں نہ لے گی۔ اردو ڈائجسٹ کی سٹوری کے مطابق سب لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ چین میں ہوائی اڈے پر اُترے تو وزیراعظم سمیت تمام قافلے کو فوراً ہوٹل پہنچایا گیا۔ وفد کے تمام ارکان جی بھر کر سوئے اور اگلے روز اُٹھے تو پھر سرکاری دورہ شروع ہوا۔ ایسی خوراکیں ہمارے حکمران روز کھائیں اور بار بار کھائیں۔ اس سے قومی خزانے کا بال تک بیکا نہیں ہو گا۔
ایک بار بے نظیر نے اپنے بیٹے کی سالگرہ بحری جہاز میں منانے کا فیصلہ کیا۔ سالگرہ کے انتظامات مکمل ہو گئے تو کیک کاٹا گیا۔ اسی دوران بچے نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بندر کا تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔ بچے کی ضد بڑھی تو بے نظیر بھٹو نے اسے پورا کرنے کا حکم دیا۔ آخر سرکاری کارندے ایک ہیلی کاپٹر میں کراچی کی دُور دراز بستی سے ایک تماشہ گر کو مع بندر ڈھونڈ لائے۔ تب بچے سمیت تمام مہمانوں نے بندر کا تماشا دیکھا اور پھر بندر والے کو ہیلی کاپٹر واپس چھوڑ آیا۔ ایسے تماشے ہمارے حکمران اپنے بچوں کو لگاتار دکھاتے رہیں۔ خزانے پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
آج کل ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات کروڑوں کے ہیں۔ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ ہاﺅسز کے اخراجات بھی ان کی آن بان اور شان کے مطابق ہیں۔ گزشتہ سال اداکارہ انجلینا جولی سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے پاکستان آئیں تو وزیراعظم گیلانی کا خاندان انجلینا سے ملاقات کے لئے ملتان سے طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچا۔ انجلینا ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ ایسی دعوتیں اڑتی رہیں۔ بڑے ہاﺅسز کے اخراجات اگر تھوڑے سے مزید بڑھا دئیے جائیں تو بھی قومی خزانے کو کوئی ضعف نہیں پہنچے گا۔ پھر قومی خزانہ آخر لاغر کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ لوٹ مار اور کرپشن ہے۔ جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان میں ہونیوالی کرپشن پر مسلسل اور کڑی نظر ہے۔ اس کے تازہ ترین تجزئیے کے مطابق گزشتہ 3 برسوں میں صرف مخصوص شعبوں میں قوم کو 30 کھرب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 3 سال کے محتاط اعداد و شمار 10 کھرب روپے سالانہ ہیں، جس میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن کا اندازہ اس کی عالمی رینکنگ سے لگایا جا سکتا ہے جوکہ 2008ءمیں 47ویں 2009ءمیں 42ویں اور 2010ءمیں 34ویں ہو گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے بیان کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں 2009ءکے دوران کم از کم کرپشن 5 سو ارب روپوں کی ہوئی جبکہ سرکاری ادارے جیسے پی آئی اے، واپڈا، اسٹیل ملز اور ریلویز ٹیکس دہندگان کے 3 سو ارب روپے ہڑپ کر گئے۔ 2009ءمیں کرپشن کی نذر ہونے والی رقم 195 ارب روپے تھی جوکہ 2010ءمیں 225 ارب روپے ہو گئی۔ کرپشن کی اس بھاری رقم میں لینڈ ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی بڑی کرپشن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ، سوئی سدرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، سول ایوی ایشن اتھارٹی، نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ، پیپکو، ایرا، ایس وی بی پی، این بی پی، سی ڈی اے، وزارت دفاع، ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی، نیشنل لاجسٹک سیل، پی ایس او، پی این ایس سی، کنٹونمنٹ بورڈز وغیرہ میں حکومت کی جانب سے کی گئی خریداری میں ہونے والی کرپشن شامل نہیں ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کرپشن پر قابو پانے اور اس عفریت سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے کرپٹ لوگوں کو تحفظ دے رہی ہے جبکہ انسداد کرپشن کے ادارے جیسے کہ ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو کو حکومت کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے تاکہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کو اور کرپٹ افراد کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ نامور معیشت دان اور معاشی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ اگر پاکستان میں موثر طریقے سے کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو اسے امریکہ سمیت کسی ملک سے امداد کی ضرورت نہیں رہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پاکستان میں اندھا دھند کرپشن کے حوالے سے سال بہ سال رپورٹ منظر پر آتی رہی ہے۔ جس کی حکومت کی طرف سے سخت الفاظ میں تردید کی جاتی رہی ہے اور جہاں تک کہا جاتا ہے کہ ایمنسٹی حکومت کے مخالفین کے ایما پر ایسی رپورٹیں جاری کر کے حکومت کو بدنام کرتی ہے۔ اگر حکومتی موقف کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا جائے کہ ہمارے حکمران ایماندار دیانتدار اور پارسا ہیں۔ کرپشن اور حکمرانوں کے مابین فاصلہ بعد المشرقین ہے۔ کرپشن کی باتیں اپوزیشن نے پھیلائی ہیں یا پیپلز پارٹی کے ناراض ساتھیوں نے اڑائی ہیں۔ جمشید دستی نہ صرف حکومت کا حصہ بلکہ اس کے لاڈلے بھی ہیں۔ وزیراعظم گیلانی ان کی انتخابی مہم ان کے حلقے میں جا کر چلاتے رہے۔ جمشید دستی نے رحیم یار خان کے وکلا کے درمیان کھڑے ہو کر اپنے وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ ”پیپلز پارٹی اپنے منشور سے ہٹ کر کام کر رہی ہے جس کے سب سے بڑے ذمہ دار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنہوں نے ہر جگہ کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فارم بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے کرپشن کی نذر ہوئے“۔ جمشید دستی ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے جو بات کی سوچ سمجھ کر کی ہو گی۔ وزیراعظم کا دامن کرپشن سے پاک ہے تو اب تک نوٹس لے لیا جانا چاہئے تھا۔ بہتر ہے وزیراعظم صاحب دستی صاحب کو عدالت میں لے جائیں۔
آج کرپشن، بدعنوانی اور بے ایمانی کا جس طرح چلن ہے۔ اس پر ہر کسی کی نظر ہے۔ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی اور جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھانے اور چلائے رکھنے کی تمنا رکھنے والوں کی بھی۔ اگر سیاستدان خود اپنی اداﺅں سے جمہوریت کو ڈیل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو تقویت پہنچائیں تو دوش کس کو دیا جائے گا؟
No comments:
Post a Comment