جولائی,13 ، 2011
نیلوں کے سنگم کی سرزمیں کی تقسیم
فضل حسین اعوان
دریائے نیل میں گرنے والے دو اہم دریا نیل ابیض اور ارزق ہیں۔ قبل الذکر استوائی مشرقی افریقہ آخری الذکر ایتھوپیا سے نکلتا ہے۔ دونوں دریا سوڈان میں اس کے دارالحکومت خرطوم کی دہلیز پر باہم گلے ملتے یک رنگ و ہم آہنگ ہو کر دریائے نیل کی صورت میں اس کے پانی صحرا ¶ں اور دشت و بیبانوں میں لہراتے اور بل کھاتے مصر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں! وہی دریائے نیل جو صدیوں سے ہر سال ایک دوشیزہ کا خون پی کر روانی پر آمادہ ہوتا تھا۔ جب مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے فاتح مصر حضرت عمرو بن عاصؓ سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دار و مدار دریائے نیل پر ہے‘ ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ ہر سال ایک حسین جمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہو جاتا اور قحط پڑ جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے انہیں اس رسم سے روک دیا۔ جب دریا سوکھنے لگا تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے یہ واقعہ خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کو لکھ بھیجا۔ جواب میں حضرت عمرؓ نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ جاہلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا اور آپؓ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھ بھیجا اور اسے دریا میں ڈالنے کی ہدایت کی۔ اس خط کا مضمون یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب کی طرف سے نیل مصر کے نام ہے اگر تو اپنے اختیار سے جاری ہے تو ہمیں تجھ سے کوئی کام نہیں اور اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو اب اللہ کے نام پر جاری رہنا‘ اس خط کے ڈالتے ہی دریائے نیل بڑھنا شروع ہوا‘ پچھلے سالوں کی نسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اس کے بعد سے کبھی خشک نہیں ہوا۔
آج نیلوں کی سنگم کی سرزمیں پر ایک طرف جشن اور رقص طرب جاری ہے تو دوسری طرف صف ماتم بچھی ہے۔ سوڈان 1956ءمیں آزاد ہوا 9 جولائی 2011ءکو اس کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے۔ سوڈان سے عیسائی اکثریت پر مبنی شمالی سوڈان کو الگ ریاست قرار دے دیا گیا۔ تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال شمالی سوڈان جنوبی سوڈان کے جسم پر اسرائیل کی طرح کا ایک ناسور ابھار دیا گیا۔ امریکہ کی نشتر زنی کے باعث یہ پھوڑا ہمیشہ رستا اور دکھتا رہے گا۔ عمر حسن البشیر 1989ءمیں اقتدار میں آئے تو سوڈان امریکہ تعلقات میں رخنہ آیا۔ امریکہ کب کسی کو معاف کرتا ہے۔ شمالی سوڈان کے لوگوں کو آمادہ فساد کیا۔ 21 سال میں 15 لاکھ انسانوں کا خون بہا دیا گیا۔ عمر البشیر پر پابندیاں اس کے ملک پر بار بار اقتصادی تجارتی اور مالیاتی پابندیاں لگائیں اور پھر 2005ءمیں سوڈانی صدر کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کروا دئیے گئے۔ ایسے میں عمر البشیر کے سامنے دو غیرت مندانہ راستے تھے ایران کی طرح امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتا یا اقتدار سے ہٹ جاتا لیکن اس نے تیسرے راستے کا انتخابات کیا۔ ذلتوں کے راستے کا‘ امریکہ کی ڈکٹیشن مان لی اور صدام جیسے انجام سے محفوظ رہا۔ اس پر قائم ہم وطنوں کا اعتبار جاتا رہا لیکن اقتدار بچ گیا۔ وہ 68 سال کا ہونے والا ہے۔ صدارت کرتے 22 سال بیت گئے۔ اقتدار بچانے کے لئے ملک کے ٹکڑے کروانے پر اس کو کم از کم 500 سال تک اقتدار کی خیرات تو ملنی ہی چاہئے۔ دیکھئے قدرت کتنی مہلت دیتی ہے۔ بہرحال یہ امریکی صدر ریگن کے نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پیشرفت ہے۔ جس کے تحت اسلامی ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس ایجنڈے پر ہنود و یہود و نصاریٰ متحد اور متفق ہیں۔ رواں صدی کے آغاز میں انڈونیشیا کی وحدت ختم کرکے مشرقی تیمور نامی عیسائی ریاست قائم کی گئی۔ اب شمالی سوڈان کو جنوبی سوڈان سے الگ کر دیا گیا۔ عراق کو پانچ افغانستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ لیکن اس سے بھی قبل لیبیا کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو متحرک رکھنا بھی مسلم ممالک کی تقسیم کی عالمی تحریک کا حصہ ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں مغرب اقوام متحدہ کے غلامانہ کردار کے باعث اپنے مقاصد بڑی آسانی اور بڑی تیزی سے حاصل کر رہا ہے۔ اگر مسلم امہ متحد نہ ہوئی تو اسلامی ممالک ٹکڑیوں میں بٹے نظر آئیں گے۔ بدقسمتی سے اکثر مسلمان حکمران مغرب کے ایجنڈے کی آبیاری کر رہے ہیں محض اپنے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے۔
امریکہ نے عمر البشیر کو شمالی سوڈان میں بغاوتیں اٹھا کر اس پر پابندیاں لگا کر اور عالمی عدالت انصاف سے وارنٹ گرفتاری نکلوا کر شمالی سوڈان میں ریفرنڈم کرانے‘ اس کے نتائج تسلیم کرنے اور آزادی کی تقریب تک میں شرکت پر مجبور کر دیا۔ نیلوں کی سنگم کی سرزمین کی تقسیم کا عمل محض 21 سال میں مکمل ہو گیا۔ مسئلہ کشمیر 64 سال سے دہک رہا ہے۔ اس کی طرف عالمی برادری کی نظر نہیں جاتی۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ جس نے اس مسئلے کا حل کشمیریوں کیلئے حق خودارادیت قرار دیا جسے بھارت نے بھی قبول کیا۔ امریکہ اقوام متحدہ اور اس مسئلے کا خالق برطانیہ ویسا ہی دبا ¶ بھارت پر استصواب کے لئے کیوں نہیں ڈالتے جیسا سوڈان پر شمالی سوڈان میں ریفرنڈم پر ڈالا۔ جس طرح انڈونیشیا پر مشرقی تیمور کی علیحدگی پر ڈالا؟ یقیناً اس لئے کہ شمالی سوڈان اور مشرقی تیمور کے آباد کار عیسائی اور کشمیر کے مسلمان ہیں۔ مسلمان یونہی بٹے ایک دوسرے سے کٹے رہے تو تنہائیاں‘ رسوائیاں بن کر ان کی ذلتوں کا سامان اور نشان بنتی رہیں گی حل ایک ہی عالم اسلام کے اتحاد ہیں۔ اتفاق میں اور ایک دوسرے کے لئے ایثار ہیں۔
No comments:
Post a Comment