جمعرات ، 07 جولائی ، 2011
او آئی سی ۔۔۔ شعلہ ہے نہ چنگاری
فضل حسین اعوان
آستانہ‘ قازقستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بڑے دلیرانہ اور جرات مندانہ فیصلے کئے گئے۔ گمان گزرا کہ 57 اسلامی ممالک کی خوابیدہ تنظیم بیدار ہو گئی ہے۔ اب یہ بحرانوں کی دلدل میں دھنسے اور مسائل کے بھنور میں پھنسے مسلمانوں اور ان کے ممالک کو نکال لے گی۔
ایسی بھی چنگاری یا رب میری خاکستر میں تھی
اجلاس میں جہاں پاکستان اور بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ کوششوں پر زور دیا گیا وہیں کشمیر‘ فلسطین‘ لیبیا اور شام کے مسائل کرنے کیلئے کمشن کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا دنیا میں امن کے قیام اور انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ او آئی سی عالمگیریت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امہ کے لئے اس کا کردار نیٹو جیسا ہو گا۔ جو ایک کال پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے نکل کھڑی ہوئی تھی اب لیبیا پر یلغار کئے ہوئے ہے۔ ایسے خیالات کو مزید تقویت او آئی سی کے اس عزم سے پہنچی ”مسلم امہ کا اتحاد ناگزیر ہے۔ ہمیں ایک طاقت بننا ہے تاکہ اپنے حالات بہتر اور اپنے آپ کو مضبوط بنایا جا سکے۔“اجلاس کے دوران بھارت کو محض اتنا کہا گیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دے۔ بامقصد مذاکرات کا او آئی سی مشورہ دے یا امریکہ و برطانیہ تلقین کرے اس کا بھارت نے کبھی برا نہیں منایا کیونکہ وہ ”بامقصد مذاکرات“کا پاکستان کو پہلے ہی چکر دے رہا ہے تاہم بھارت کو کشمیریوں کے لئے حق خودارادیت کا مشورہ بھارت کو لڑ گیا خصوصی طور پر نائیجریا کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہو گا۔ اس پر بھارت آگ الگ رہا ہے۔ شعلہ زن اور کوئلہ بدن ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وشنو پرکاش نے عیار ہندو کی سوچ ایک بار پھر واضح کر دی۔
اس نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی طرف سے کشمیر سے متعلق پاس کی گئی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ کشمیر بھارت کا ایک اٹوٹ انگ ہے اور اسلامی ممالک کو بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وشنو پرکاش کے بیان میں اسلامی ممالک کی تنظیم کو متنبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے کیونکہ کشمیر بھارت کا ایک اٹوٹ انگ ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ او آئی سی نے ایک بار پھر کشمیر سے متعلق قرارداد پاس کرکے بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل دیا ہے۔ ان قراردادوں کا نئی دہلی پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ بھارت کے اس ردعمل پر او آئی سی کا اس سے بھی شدید ردعمل ہونا چاہئے تھا لیکن بالکل‘ خاموشی مکمل خاموشی‘ شاید آستانہ کی مصروفیات کے بعد سستا رہی اور تھکاوٹ اتار رہی ہے۔ یہ سو رہی ہے امہ اس کی جان کو رو رہی ہے۔ بیدار ہو گی تو شاید ایسے ہی نئے اجلاس کی تیاری شروع کر دے گی۔ وہ جو خاکستر میں چنگاری نظر آئی تھی پھلجھڑی ثابت ہوئی۔ جو جلی‘ چلی اور کرنیں بکھیر کر بجھ گئی
نہ جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
دوسری طرف پاکستانی حکام کی حالت زار ملاحظہ فرمائیے۔ وزیراعظم وزیر خارجہ و وزارت خارجہ‘ کشمیر کمیٹی اور اس کے چیئرمین نے بھی بھارتی وزارت خارجہ کی او آئی سی کو تنبیہ اور اٹوٹ انگ کا راگ ہضم کر لیا۔ بیان کا جواب دیتے ہیں پاکستانی حکام کو موت کیوں پڑ گئی؟ بھارت کی آتش باری پر خاموشی کیوں؟ او آئی سی اسی طرح صرف کھوکھلے دعوے کرتی اور پھوکے نعرے لگاتی رہی تو فلسطین اور کشمیر پر صدیوں بھی پیشرفت تو کیا ہو گی۔ ہنود و یہود و نصاریٰ مسلمانوں پر قیامت برپا کرتے رہیں۔ کل عراق اور افغانستان کو تاراج‘ آج پاکستان اور لیبیا ٹارگٹ ہیں۔ شام پر بھی نظر ہے۔ اس کے بعد ان کی باری جو خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ او آئی سی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ ان کی نمائندگی کا حق ادا کرے۔ شیر بنے‘ خود کو ہیجڑوں کا گروپ ثابت نہ کرے۔ عالمی طاقت اور مضبوط بننے کے لئے فرزانگی کے ساتھ ساتھ مردانگی‘ امہ کے لئے اپنی جان پر کھیل جانے تک کی دیوانگی کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment