ہفتہ ، 09 جولائی ، 2011
مادرِ ملت کو ہرایا نہ جاتا تو....
فضل حسین اعوان
بانیانِ پاکستان کی یادوں کے چراغ بلاشبہ ہمارے دلوں میں آج بھی شمع فروزاں بن کر جگمگا رہے ہیں۔ لیکن ہماری درماندگی اور پسماندگی کی وجوہات میں قائدین کے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی اور دکھائے گئے راستوں سے ہٹ اور بھٹک جانا ہے۔ قائداعظم کی طرح قائداعظم کی تصویر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی بااصول، بامروت، پروقار، شائستہ اور جہدِ مسلسل کا پیکر تھیں۔ اپنے عظیم بھائی کی رحلت کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے خود کو سیاست سے الگ کر لیا تھا تاہم پاکستان کو مسائل کے گرداب میں دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتی تھیں۔ رتی بائی سے شادی سے قبل اور رتی کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اپنے محترم بھائی کا سایہ بن کر ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ قائداعظم کی پاکستان کے ساتھ ایک ایک کمٹمنٹ سے آگاہ تھی۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کشمیر کی پاکستان کے لئے اہمیت سے پوری آگاہ تھیں دسمبر 1948ءکو انجمنِ تاجران کراچی سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ نے فرمایا ”اس وقت پاکستان کو مختلف اہم مسائل کا سامنا ہے اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ان میں مسئلہ کشمیر سب سے زیادہ اہم ہے مدافعتی نقطہ نگاہ سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقتصادی لحاظ سے کشمیر ہماری مرفع الحالی کا منبع ہے۔ پاکستان کے بڑے دریا اسی ریاست کی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے اور ہماری خوشحالی میں مدد دیتے ہیں اس کے بغیر پاکستان کے مرفع الحالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر خدا نہ کرے ہم کشمیر سے محروم ہو جائیں تو قدرت کی عطا کردہ نعمت عظمٰی کا بڑا حصہ ہم سے چھن جائے گا“۔ کشمیر ہماری مدافعت کا کلیدی نقطہ ہے۔ اگر دشمن کو کشمیر کی خوبصورت وادی اور پہاڑوں میں مورچہ بندی کا موقع مل جائے تو پھر یہ اٹل امر ہے کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت اور اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرے گا۔ پس اپنے آپ کو مضبوط اور حقیقتاً طاقتور قوم بنانے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کو دشمن کی ایسی سرگرمیوں کی زد میں نہ آنے دیا جائے۔ اس لحاظ سے کشمیر کی مدد ہمارا اولین فرض ہو جاتا ہے“۔
قائداعظم کشمیر بزور حاصل کرنا چاہتے تھے۔ قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی نے حیلہ و بہانہ سازی سے قائد محترم کی خواہش کو عملی جامعہ پہنانے کی راہ میں حائل ہو گئی۔ اب تو ہمارے قومی معاملات میں کسی گریسی کا عمل دخل نہیں اس کے باوجود 64 سال گزر گئے قائد کی خواہش بر نہیں آ سکی۔ ہماری نااہلیوں نالائقیوں اور غفلتوں کا شاخسانہ ہے کہ ہم نہ صرف کشمیر حاصل نہیں کر سکے بلکہ اس کے برعکس آدھا پاکستان گنوا دیا۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد محترمہ کی صورت میں قوم کے پاس قائداعظم کا متبادل اور عظیم سیاستدان موجود تھیں۔ ذاتی مفادات کے اسیر حکمرانوں اور کرتا دھرتاﺅں نے محترمہ کی خدمات سے استفادہ نہ کر کے اپنی رعونت اور فرعونیت کے باعث پاکستان کو دولخت ہونے کی راہ پر گامزن کر دیا۔ محترمہ وہ عظیم خاتون تھیں جن کو اقتدار کی قطعاً کوئی خواہش نہیں تھی۔ ان کا عزم و ارادہ سنگلاخ چٹانوں کی طرح تھا۔ حوصلہ بڑھتے ہوئے طوفانوں کی طرح تھا جس کا اظہار انہوں نے ایوبی آمریت کے دوران کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ایوبی آمریت عروج پر تھی۔ ایوب کے مدمقابل آنے پر پورے پاکستان سے کوئی بھی لیڈر تیار نہیں تھا۔ ایوب خان کے مخالفوں نے ملک بچانے کا واسطہ دے کر مادر ملت کو مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ مادر ملت نے حب الوطنی کے ارفع و اعلیٰ جذبہ کے تحت پاکستان کو آمریت کے چنگل سے چھڑانے اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اس وقت محترمہ کی عمر 72 برس تھی۔ اس کے باوجود مادر ملت کے جذبے جوان تھے وہ بے باک پانیوں کی طرح شہر شہر گھوم کر قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رہی تھیں۔
انہوں نے مغربی و مشرقی پاکستان میں طوفانی انتخابی مہم چلائی۔ دونوں حصوں میں ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ مشرقی پاکستان میں بھی محترمہ کے جلسوں میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا۔ وہاں ایوب خان کے کئی جلسوں میں فاطمہ جناح زندہ باد کے نعرے گونجتے۔ لوگ اپنے محبوب قائد کی عظیم ہمشیرہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتے۔ محترمہ غالباً سلہٹ ریلوے سٹیشن پر اتریں۔ بنگالی والہانہ استقبال کے لئے موجود تھے۔ حد نظر تک ہر طرف سر ہی سر نظر آتے تھے۔ فلائی اوور پر بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رش کی وجہ سے پل گر گیا۔ لوگ زخمی ہوئے۔ ایک بنگالی اپنے نوعمر بیٹے کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ”ماں کو دیکھ لیا، ماں کو دیکھ لیا“۔ بانیانِ پاکستان کے لئے بنگالیوں کے دلوں میں اس حد تک عزت و عظمت کے جذبات تھے۔
لیکن جہاں ظلمت سچ پر چھا گئی۔ انصاف کو ظلم کی چادر نے ڈھانپ لیا، بددیانتی دیانت پر بھاری پڑ گئی، مفاداتی ذہنیت کے لوگوں کی بدبودار پالیسیوں نے مادر ملت کو ہرانے کا اہتمام کر دیا۔ پولنگ سٹیشنوں پر انسان تو تعینات تھے اکثر میں انسانیت نہیں تھی۔ قوم کے جذبات کو پولنگ سٹیشنوں پر یرغمال بنا لیا گیا تمام پاکستانی ووٹرز نہیں تھے بی ڈی سسٹم رائج تھا اور بہت سے بی ڈی ممبرز کے ضمیر بھی بک گئے، محترمہ کو 49951 ممبران کے مقابلے میں صرف 28691 ممبران کے ووٹ ظاہر کئے گئے۔ پھر محض 6 سال بعد مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو گیا۔ آمر کے آمریت کو طول دینے کے خبط نے اسے الیکشن میں دھاندلی پر آمادہ کیا۔ کشمیر کو نظرانداز کرنے والے جرنیلوں نے 1958ءمیں بوٹوں کی دھمک سے اپنے ہی ملک کو فتح کیا پھر 2 جنوری 1965ءکو انتخابی نتائج کو یرغمال بنا کر عوام کو بھی فتح کر لیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا نہ جاتا تو یقیناً دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ٹکڑوں میں نہ بٹتا اور کشمیر بھی آزاد ہو چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے آج تک پاکستان کو قائداعظم اور مادر ملت جیسا ایک بھی حکمت و دانش کا مرقع، جرا ¿ت و عظمت کا منبع رہنما نہ مل سکا جو ملے ان میں سے کسی نے دریا بیچے، کسی نے سرکریک اور سیاچن کا سودا کیا کسی نے انسان، انسانیت، قومی وقار و حمیت اور خودداری و خودمختاری فروخت کر کے ملک و قوم کو غیروں کا دست نگر مطیع اور غلام بنا دیا۔
مادرِ ملت کو ہرایا نہ جاتا تو....
بانیانِ پاکستان کی یادوں کے چراغ بلاشبہ ہمارے دلوں میں آج بھی شمع فروزاں بن کر جگمگا رہے ہیں۔ لیکن ہماری درماندگی اور پسماندگی کی وجوہات میں قائدین کے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی اور دکھائے گئے راستوں سے ہٹ اور بھٹک جانا ہے۔ قائداعظم کی طرح قائداعظم کی تصویر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی بااصول، بامروت، پروقار، شائستہ اور جہدِ مسلسل کا پیکر تھیں۔ اپنے عظیم بھائی کی رحلت کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے خود کو سیاست سے الگ کر لیا تھا تاہم پاکستان کو مسائل کے گرداب میں دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتی تھیں۔ رتی بائی سے شادی سے قبل اور رتی کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اپنے محترم بھائی کا سایہ بن کر ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ قائداعظم کی پاکستان کے ساتھ ایک ایک کمٹمنٹ سے آگاہ تھی۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کشمیر کی پاکستان کے لئے اہمیت سے پوری آگاہ تھیں دسمبر 1948ءکو انجمنِ تاجران کراچی سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ نے فرمایا ”اس وقت پاکستان کو مختلف اہم مسائل کا سامنا ہے اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ان میں مسئلہ کشمیر سب سے زیادہ اہم ہے مدافعتی نقطہ نگاہ سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقتصادی لحاظ سے کشمیر ہماری مرفع الحالی کا منبع ہے۔ پاکستان کے بڑے دریا اسی ریاست کی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے اور ہماری خوشحالی میں مدد دیتے ہیں اس کے بغیر پاکستان کے مرفع الحالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر خدا نہ کرے ہم کشمیر سے محروم ہو جائیں تو قدرت کی عطا کردہ نعمت عظمٰی کا بڑا حصہ ہم سے چھن جائے گا“۔ کشمیر ہماری مدافعت کا کلیدی نقطہ ہے۔ اگر دشمن کو کشمیر کی خوبصورت وادی اور پہاڑوں میں مورچہ بندی کا موقع مل جائے تو پھر یہ اٹل امر ہے کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت اور اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرے گا۔ پس اپنے آپ کو مضبوط اور حقیقتاً طاقتور قوم بنانے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کو دشمن کی ایسی سرگرمیوں کی زد میں نہ آنے دیا جائے۔ اس لحاظ سے کشمیر کی مدد ہمارا اولین فرض ہو جاتا ہے“۔
قائداعظم کشمیر بزور حاصل کرنا چاہتے تھے۔ قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی نے حیلہ و بہانہ سازی سے قائد محترم کی خواہش کو عملی جامعہ پہنانے کی راہ میں حائل ہو گئی۔ اب تو ہمارے قومی معاملات میں کسی گریسی کا عمل دخل نہیں اس کے باوجود 64 سال گزر گئے قائد کی خواہش بر نہیں آ سکی۔ ہماری نااہلیوں نالائقیوں اور غفلتوں کا شاخسانہ ہے کہ ہم نہ صرف کشمیر حاصل نہیں کر سکے بلکہ اس کے برعکس آدھا پاکستان گنوا دیا۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد محترمہ کی صورت میں قوم کے پاس قائداعظم کا متبادل اور عظیم سیاستدان موجود تھیں۔ ذاتی مفادات کے اسیر حکمرانوں اور کرتا دھرتاﺅں نے محترمہ کی خدمات سے استفادہ نہ کر کے اپنی رعونت اور فرعونیت کے باعث پاکستان کو دولخت ہونے کی راہ پر گامزن کر دیا۔ محترمہ وہ عظیم خاتون تھیں جن کو اقتدار کی قطعاً کوئی خواہش نہیں تھی۔ ان کا عزم و ارادہ سنگلاخ چٹانوں کی طرح تھا۔ حوصلہ بڑھتے ہوئے طوفانوں کی طرح تھا جس کا اظہار انہوں نے ایوبی آمریت کے دوران کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ایوبی آمریت عروج پر تھی۔ ایوب کے مدمقابل آنے پر پورے پاکستان سے کوئی بھی لیڈر تیار نہیں تھا۔ ایوب خان کے مخالفوں نے ملک بچانے کا واسطہ دے کر مادر ملت کو مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ مادر ملت نے حب الوطنی کے ارفع و اعلیٰ جذبہ کے تحت پاکستان کو آمریت کے چنگل سے چھڑانے اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اس وقت محترمہ کی عمر 72 برس تھی۔ اس کے باوجود مادر ملت کے جذبے جوان تھے وہ بے باک پانیوں کی طرح شہر شہر گھوم کر قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رہی تھیں۔
انہوں نے مغربی و مشرقی پاکستان میں طوفانی انتخابی مہم چلائی۔ دونوں حصوں میں ان کا والہانہ استقبال ہوا۔ مشرقی پاکستان میں بھی محترمہ کے جلسوں میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا۔ وہاں ایوب خان کے کئی جلسوں میں فاطمہ جناح زندہ باد کے نعرے گونجتے۔ لوگ اپنے محبوب قائد کی عظیم ہمشیرہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتے۔ محترمہ غالباً سلہٹ ریلوے سٹیشن پر اتریں۔ بنگالی والہانہ استقبال کے لئے موجود تھے۔ حد نظر تک ہر طرف سر ہی سر نظر آتے تھے۔ فلائی اوور پر بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رش کی وجہ سے پل گر گیا۔ لوگ زخمی ہوئے۔ ایک بنگالی اپنے نوعمر بیٹے کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ”ماں کو دیکھ لیا، ماں کو دیکھ لیا“۔ بانیانِ پاکستان کے لئے بنگالیوں کے دلوں میں اس حد تک عزت و عظمت کے جذبات تھے۔
لیکن جہاں ظلمت سچ پر چھا گئی۔ انصاف کو ظلم کی چادر نے ڈھانپ لیا، بددیانتی دیانت پر بھاری پڑ گئی، مفاداتی ذہنیت کے لوگوں کی بدبودار پالیسیوں نے مادر ملت کو ہرانے کا اہتمام کر دیا۔ پولنگ سٹیشنوں پر انسان تو تعینات تھے اکثر میں انسانیت نہیں تھی۔ قوم کے جذبات کو پولنگ سٹیشنوں پر یرغمال بنا لیا گیا تمام پاکستانی ووٹرز نہیں تھے بی ڈی سسٹم رائج تھا اور بہت سے بی ڈی ممبرز کے ضمیر بھی بک گئے، محترمہ کو 49951 ممبران کے مقابلے میں صرف 28691 ممبران کے ووٹ ظاہر کئے گئے۔ پھر محض 6 سال بعد مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہو گیا۔ آمر کے آمریت کو طول دینے کے خبط نے اسے الیکشن میں دھاندلی پر آمادہ کیا۔ کشمیر کو نظرانداز کرنے والے جرنیلوں نے 1958ءمیں بوٹوں کی دھمک سے اپنے ہی ملک کو فتح کیا پھر 2 جنوری 1965ءکو انتخابی نتائج کو یرغمال بنا کر عوام کو بھی فتح کر لیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا نہ جاتا تو یقیناً دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ٹکڑوں میں نہ بٹتا اور کشمیر بھی آزاد ہو چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے آج تک پاکستان کو قائداعظم اور مادر ملت جیسا ایک بھی حکمت و دانش کا مرقع، جرا ¿ت و عظمت کا منبع رہنما نہ مل سکا جو ملے ان میں سے کسی نے دریا بیچے، کسی نے سرکریک اور سیاچن کا سودا کیا کسی نے انسان، انسانیت، قومی وقار و حمیت اور خودداری و خودمختاری فروخت کر کے ملک و قوم کو غیروں کا دست نگر مطیع اور غلام بنا دیا۔
No comments:
Post a Comment