About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, July 22, 2011

خاتون وزیر خارجہ سے توقعات

جمعۃالمبارک ، 22 جولائی ، 2011

خاتون وزیر خارجہ سے توقعات
فضل حسین اعوان
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل میں پیشرفت ہونے کے بجائے یہ مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا چلا گیا۔ قائد اعظم یہ مسئلہ ہر صورت حل کرنا چاہتے تھے۔ نوزائیدہ مملکت ابھی اپنے پاﺅں پر بھی ٹھیک طریقے سے کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ قائد اعظم نے قائمقام آرمی چیف جنرل گریسی کو کشمیر پر قبضے کا حکم دیدیا۔ یہی قومی غیرت، خودمختاری، خود داری اور وقار کا تقاضا تھا۔ آج ہم ایٹمی قوت تو ہیں لیکن قومی غیرت حمیت گروی رکھ دی گئی ہے۔ جنرل گریسی کے پاﺅں میں مجبوریوں کی زنجیر تھی۔ جنرل گریسی نے قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو عذر پیش کیا، قائد اعظم نے اس سے اتفاق کیا۔ اس لیے قائد اعظم کی زندگی میں پورے کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنایا جا سکے۔ اس کے بعد بھارت کی مذاکرات کی ڈرامہ بازی شروع ہوئی۔ ظفر چودھری سے شاہ محمود قریشی تک پاکستان میں 25 وزرائے خارجہ آئے جو مسئلہ کشمیر پر بھارت سے مذاکرات کر تے رہے ہیں۔ بھارت مذاکرات کے نام پر ان کو چکر دے رہا ہے اور یہ چکر میں آتے چلے جا رہے ہیں۔ 25 وزرائے خارجہ کی کشمیر پر مذاکرات کی کارکردگی کے پیش نظر کسی بھی پارلیمنٹیرین اگر پارلیمنٹ کسی آمر کی لگائی آگ میں دھواں بن جائے تو کسی بھی پاکستانی کو وزیر خارجہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سفارشی وزرائے خارجہ سے عوام میں سے چنا گیا شخص بہتر کارگزاری دکھا دیتا۔ شاہ محمود قریشی حکمرانوں کی اناﺅں کی بھینٹ چڑھے یا ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے ہیلری کی اداﺅں کی۔ ان کی جگہ بہرحال کسی کو تو وزیر خارجہ لانا تھا۔ حنا ربانی کھر کو شاہ محمود قریشی کی برطرفی یا استعفےٰ کے بعد 11فروری 2001ءکو وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنایاگیا۔ خارجہ امور میں حنا ربانی کھر کو مختصر ہی سہی ایک تجربہ تو حاصل ہو گیا۔ شاید اسی بنا پر صدر آصف علی زرداری نے ان کو مستقل اور مکمل وزیر خارجہ کا درجہ دیدیا۔
حنا ربانی کھر پاکستان کی سب سے کم عمر وزیر خارجہ ہیں وہ 1977ءکو ملتان میں پیدا ہوئیں، قبل ازیں کم عمر وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھا۔ وہ 35 سال کی عمر میں وزیر خارجہ بنے۔ حنا ربانی نے 34 سال کی عمر میں یہ سنگ میل عبور کیا۔ عمر کا ریکارڈ تو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ حنا ربانی کھر مخصوص نشستوں سے نہیں فردوس عاشق اعوان کی طرح 2002ءمیں ق لیگ اور 2008ءمیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پارلیمنٹ میں آئیں۔ حنا ربانی نے بطور وزیر خزانہ برائے مملکت2009-10ءکا بجٹ بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ حنا، ملک غلام نور ربانی کھر کی صاحبزادی اور ملک غلام مصطفےٰ کھر کی بھتیجی ہیں۔ دونوں بار الیکشن آبائی حلقے مظفر گڑھ سے لڑا۔ حنا نے 1999ءمیں بی ایس سی آنرز لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور ایم ایس سی مینجمنٹ میساچوسٹس یونیورسٹی سے 2001ءمیں کیا۔ ان کی بزنس مین فیروز گلزار سے شادی ہوئی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔صدر آصف علی زرداری نے حنا ربانی کھر کی صلاحیتوں کو پرکھ کر یا محض خانہ پُری کے لئے ان کو وزیر خارجہ کا منصب تفویض کر دیا۔ تاہم اب خاتون وزیر خارجہ کے لئے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، خود کو قومی اور عالمی سطح پر منوانے کا بہترین موقع ہے۔ آج پاکستان کی پسماندگی اور درماندگی عیاں ہے۔ مردانگی کا اظہار بھی ایسے ہی حالات میں ہوسکتا ہے۔ مرد وزرائے خارجہ کی کارکردگی خصوصاً دہشت کی موجودہ جنگ اور 63 سال سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے زنانہ قسم کی رہی ہے۔ اب خاتون وزیر خارجہ کو موقع ملا ہے تو قوم ان سے مادرِ ملت جیسی جرات مندانہ بے باکانہ کارکردگی اور باوقار و رعب دار رویے کی توقع رکھتی ہے۔ ہر فورم پر پاکستان کا اصولی موقف بڑے جاندارانہ اور جانبدارانہ طریقے سے لے کر آگے بڑھا جائے۔ نئی ذمہ داریوں کے بعد آج وہ آسیان اجلاس میں شرکت کے لئے انڈونیشیا چلی گئیں۔ ہیلری پاکستان میں اپنے سٹیٹس کی شخصیت کی عدم موجودگی سے پاکستان آنے سے گریزاں تھیں اب آسیان اجلاس کے دوران وہ پاکستان کی مکمل وزیر خارجہ سے ملیں گی۔ اس میں حنا کو کونڈولیزا رائس اور ہیلری کی طرح مضبوط اعصابی شخصیت کا تاثر دینا چاہیے۔ جنرل شجاع پاشا نے کل کے سی آئی اے سربراہ اور آج کے وزیر دفاع لیون پینٹا سے ملاقات کے دوران ان کے جارحانہ انداز کا جواب جارحانہ طرز پر ہی دیتے ہوئے کہا تھا:”تم نہیں، خدا میرا باس ہے“۔ دو تین روز بعد دہلی میں وزرائے خارجہ مذاکرات میں حنا پاکستانی وفد کی قیادت کریں گی۔ جہاں بھی خود کو جہاندیدہ سیاستدان اور سفارتکار ثابت کریں۔ ظاہر ہے آپ حکومتی پالیسی سے ہٹ کر بات نہیں کر سکتے۔ حکومتی پالیسی میں خوشامد اور منافقت نما مصلحت تو ہر گز شامل نہیں ہے۔ ان کے پیشرو بھارت گئے تو کہہ آئے پاکستان میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت نہیں ہے۔ اس کے برعکس سیدھا، صاف اور مبنی برحق جواب دیتے تو قوم توصیف کرتی۔ بھارت نے 63 سال سے مسئلہ کشمیر لٹکایا ہوا ہے۔ وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھارت کشمیر کو ایجنڈے میں پہلی ترجیح کے طور پر شامل نہیں کرتا تو بجائے بھارت کے کہ وہ مذاکرات کی میز سے اُٹھ جائے آپ پہل کرکے میز اُلٹا کر گھر واپس آ جائیں۔ تاریخ اور خصوصاً پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ تو یقینا محترمہ نے کر رکھا ہو گا۔ بھٹو ،اندرا گاندھی شملہ مذاکرات ناکام ہوئے تو بھٹو نے آخری لمحات میں اندرا گاندھی پر جادو جگایا تو وہ 93 ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے آمادہ ہو گئیں۔ خاتون وزیر خارجہ کو موقع ملے تو سونیا گاندھی کے کان میں ویسی ہی پھونک ماریں جیسی ضیاءالحق نے ان کے خاوند راجیو گاندھی کے کان میں ماری تھی جس کے بعد پاکستانی سرحدوں پر آمادہ فساد فوجیں واپس بلا لی گئی تھیں۔ ضیاءالحق نے تو ایٹم بم سے ڈرایا تھا، اب دکھایا بھی جا سکتا ہے۔ سونیا کو صرف اتنا کہہ دیں، کشمیر پر پیش رفت نہ ہوئی تو ایٹم بم چلایا بھی جا سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment