About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, July 5, 2011

ہمارے زریاب اور ان کا راگ

منگل ، 05 جولائی ، 2011


ہمارے زریاب اور ان کا راگ
فضل حسین اعوان 
رنگ و نور کے بحر میں ناﺅنوش اور رقص و سرود کی محفل جمی تھی۔ خلافتِ بغداد کے نامور موسیقار اسحٰق موصلی کے ہونہار شاگرد ابوالحسن علی ابن نافع المعروف زریاب کا وہاں سے گزر ہوا۔ کانوں میں نغمہ و ساز کی آواز پڑی تو یہ بھی شریک محفل ہو گیا۔ چند ثانیے بعد زریاب نے اپنے پہلو میں چھپایا ہوا آلہ ¿ موسیقی ”کانون“ نکالا۔ اس کی تاروں کو چھیڑا تو ایک ایک کرکے شمعِ محفل سمیت حاضرین زریاب کی جانب متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد یہ جانِ محفل تھا۔ اس نے راگ بدلا تو محفل کا انداز ہی بدل گیا۔ محفل قہقہہ بار ہو گئی۔ لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ زریاب نے نیا راگ چھیڑا تو یکلخت قہقہہ زن چہروں پر پژمردگی آئی، مایوسی آئی پھر محفل آہوں اور سسکیوں میں ڈوبتے ہوئے ماتم کناں تھی، سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ زریاب کے پاس وہی کانون وہی تاریں وہی انگلیاں، صرف تاروں کو چھیڑنے کی طرز بدلی تو محفل پر سناٹا چھا گیا، اگلے لمحے سب سو گئے۔ زریاب نے ان کو مدہوشی اور بے ہوشی کے عالم میں چھوڑنے سے قبل دیوار پر کوئلے سے لکھ دیا ”یہاں زریاب آیا تھا اور تم لوگوں کو بیوقوف بنا کر چلا گیا“۔ زریاب غالباً ہارون رشید کے دور کے بعد سپین ہجرت کر گیا تھا۔ ہمارے سیاست دان بھی بڑے فنکار ہیں، بڑے راگ جانتے ہیں لیکن بجاتے ایک ہی ہیں۔ لوگوں کو رلانے اور ستانے والا، جسے یہ مسلسل بجائے اور سنائے جا رہے ہیں۔ رعایا کی حالت پر رحم نہیں آتا۔ ایک تھکتا ہے تو دوسرا کانون کو تھام لیتا ہے بالکل قانون کو ہاتھوں میں لینے کی طرح یہ فنکار ہنسانے والی دھن بھی بجاتے ہیں لیکن یارانِ خاص میں۔ آج کے حکمران کانون سازی سے تھکے نہیں لیکن خود کو ان کا متبادل سمجھنے والے کانون تھام لینے کیلئے مضطرب اور بے چین و بیقرار ہیں۔ میاں نواز شریف نے زرداری حکومت کی سو بیماریاں بیان کر کے اس کا علاج تجویز کیا ہے ”حکومت کو ہٹانے کیلئے وسیع تر اتحاد بننا چاہئے، ایم کیو ایم کو گرینڈ اپوزیشن میں خوش آمدید کہتے ہیں“۔اس میں شبہ کی کی کیا گنجائش ہے کہ ملک و قوم کو قعرِ مذلت، رسوائیوں کی جس پستی محرومیوں کی جس بستی میں موجودہ حکومت نے پھینکا ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ میاں نواز شریف نے نیک نیتی سے اس کی حمایت کی لیکن تھوڑا سا چُوک گئے یہ نہ دیکھا کہ کس پر احسان کر رہے ہیں۔ بچھو کی فطرت بدلتی ہے نہ کچھوے کی عادت!حکومت کے زخم خوردہ انتقامی جذبہ کے تحت گرینڈ الائنس میں چلے تو آئیں گے لیکن یہ سیاسی طاقت بن سکتے ہیں نہ جمہوریت کی ڈھارس۔ یہ اشتعال اور ابال کے پٹاخے چلا سکتے ہیں ملک میں مزید بدامنی کی آگ پھیلا سکتے ہیں، حکومت کے کڑاکے نکال سکتے ہیں، پھٹے چُک سکتے ہیں، حکومت کے تختے الٹا سکتے ہیں تختہ نہیں الٹ سکتے۔ اے این پی اپنے مفادات کیلئے حکومت کے ساتھ چسپاں ہے، ق لیگ میاں صاحب کی انا کے باعث ایوانِ صدر کے گرد رقصاں ہے۔ آسان طریقہ اور نسخہ ق لیگ کو ساتھ ملا لینے میں ہے۔ مڈٹرم الیکشن کیلئے زور لگاتے لگاتے حریفین و فریقین آدھی چھوڑ کر پوری کے حصول کی کوشش میں اپنی آدھی آدھی سے بھی جائیں گے، پوری کوئی طالع آزما اچک لے گا۔ ان ہاﺅس تبدیلی جمہوری اور اصولی طریقہ ہے۔ مڈٹرم کی صورت میں آپ کے تخت حاصل کرنے کی کیا گارنٹی....؟ اگر آپ کامیاب بھی ٹھہرلنے والے چند ماہ بھی اتفاق سے نہیں نکال سکتے۔ حریفوں کی سازشوں اور حلیفوں کے ناز نخرے نہ اٹھانے پر یہ اسی کردار کیلئے مخالف کیمپ میں جانے سے مطلق گریز نہیں کریں گے۔ میاں نواز شریف کی سیاسی روداری کے باعث پیپلز پارٹی تو تین ساڑھے تین سال نکال گئی یہ ستم رسیدہ اور الائنس گزیدہ تو دو سال بھی مکمل نہیں کرنے دے گی۔وزیراعظم گیلانی نے حسب معمول ایک اور سنہری فلسفہ جھاڑا ہے کہ مڈٹرم کا دور گزر گیا‘ لوکل باڈیز کے الیکشن لڑیں اور نواز شریف اگلے الیکشن کی تیاری کریں، گویا اپنی اداﺅں پر پچھتاوا نہیں، راہ راست پر نہیں آنا۔ آپ وہ وجوہات ختم کریں جس کے باعث اپوزیشن مڈٹرم الیکشن کا واویلا کر رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد کے کردار سے سبق حاصل کریں۔ ان کے عوام چاہتے تھے کہ وہ مزید اپنے نظریات سے مستفید کرتے رہیں لیکن وہ اپنے اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے سیاست سے الگ ہو گئے۔ ہمارے ہاں عموماً حکمرانوں کو گریباں سے پکڑ کر ان سے نجات حاصل لی جاتی ہے۔



No comments:

Post a Comment