30-7-11
فضل حسین اعوان
برصغیر کے مسلمانوں کو حصول
برصغیر کے مسلمانوں کو حصول
پاکستان کی صورت میں منزل مقصود پر پہنچا کر قائداعظم دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہوں کو روشن کر گئے۔ خدا نے چند سال زندگی میں مہلت دی ہوتی تو بلاشبہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر دیتے۔ قائداعظم نے ہمارے لئے عظیم وطن کا انتظام کر دیا ہم اسے چلانے کا اہتمام نہ کر سکے۔ فادر آف نیشن کی ترقی اور خوشحالی کے راستوں کو روشن کرنیوالی شمعیں بجھا کر خود کو تاریکیوں میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا۔ قائداعظم نے ہمیں ترقی و خوشحالی کی جس شاہراہ پر رخت سفر دے کر گامزن کیا تھا ہم اس پر دوگام آگے بڑھتے ہیں تو چار قدم پیچھے بھی چلے جاتے ہیں۔ قائداعظم کے بعد سیاسی مینارہ نور، نقشِ قائد محترمہ فاطمہ جناح موجود تھیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ خصوصی طور پر تحریک آزادی میں قائداعظم کی رفاقت اور قیادت میں گزرا۔ سیاسی حوالے سے اگر کسی کو قائداعظم ثانی قرار دیا جا سکتا ہے تو بلاشبہ وہ مادرِ ملت ہی تھیں۔ قائد کی رحلت کے بعد کچھ سیاستدانوں نے اپنے مفادات کو لامحدود کرنے کی خاطر مادرِ ملت کی سیاسی راہیں مسدود کر دیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اعمال افعال اور اقوال سے خود کو قائداعظم کا صحیح جاں نشیں ثابت کر دیتے.... تو شاید قوم کو رہنمائی کےلئے مادرِ ملت کی طرف نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن یہاں تو مقصد ہی مادر ملت کی اہلیت کو دبانا‘ اپنی نااہلیت کو چھپانا اور اپنے کوتاہ قد کو بڑھانا تھا۔ تاہم پانی سر سے اونچا ہوا۔ ایوب کی آمریت بادشاہت میں بدلتی محسوس ہوئی تو قوم کو محترمہ یاد آ گئیں۔ قومی لیڈر شپ نے رہنمائی کی درخواست کی۔ محترمہ نے پیرانہ سالی کے باوجود قائد کے پاکستان کو بچانے کے لئے گھر آئے رہنماﺅں کی ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی خواہش کو پذیرائی بخشی لیکن آمریت کے جاہ و جلال نے انسانیت اور جمہوریت کی اقدار کو پامال کر کے رکھ دیا۔ بے ضمیر حکمرانوں کو اپنے جیسے بی ڈی ممبر مل گئے۔ انہوں نے ایوب سے کیا حاصل کر لیا۔ دھن اور دولت ایوب خان نے نچھاور کئے۔ شہرتِ بولہبی بھی ملی۔ ذلتوں اور چھتروں کے ہار عوام نے پہنا دئیے۔ وہ دھن دولت کس کام آیا اور کس کے کام آیا؟ محترمہ کو ہرا کر ایوب اور اس کے گماشتوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد کو مزید مضبوط کر دیا۔ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھنے والوں، اسے مضبوط بنانے اور علیحدگی میں براہ راست کردار ادا کرنیوالوں کی قبروں کے گرد گدھے گھومتے کتے بھونکتے اور پیشاب کرتے ہیں۔ قائد سے خونی رشتہ کے باعث محترمہ کا ہر پاکستانی کے دل میں احترام، پھر قائد کی تربیت اور خود مادرِ ملت کی اپنی اہلیت و صلاحیت‘ اس پر مستزاد ان کی سحر انگیز شخصیت، الیکشن میں بے ایمانی نہ ہوتی تو یقیناً فاطمہ جناح صدر پاکستان بن جاتیں ایسا ہوتا تو علیحدگی کی تحریک چلتی نہ جنگ ہوتی اور نہ ہی پاکستان دولخت ہوتا۔ ہم اتنا آگے نہیں آئے کہ ایڑھیاں اٹھا کر پیچھے دیکھیں ہمیں قائد ترقی و خوشحالی کی جس شاہراہ پر چھوڑ گئے تھے وہیں کھڑے ہیں۔ بالکل وہیں۔ مادرٍ ملت نے 25 دسمبر 1956ءکو قائداعظم کے یوم ولادت پر اپنی نشری تقریر میں جو کچھ کہا وہ موجودہ حالات پر منطبق اور ہمارے وہیں بھٹکنے کی نشاندہی کرتا ہے جہاں ہمیں قائداعظم نے آگے بڑھنے کو کہا تھا۔ مادر ملت نے فرمایا تھا:”آج دس سال بعد ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم عوامی امنگوں کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ پاکستان چند جاہ پسند افراد کی شکارگاہ بننے کیلئے قائم نہیں ہوا تھا جہاں وہ لاکھوں افراد کے آنسوﺅں، پسینے اور خون پر پل کر موٹے ہوتے رہیں۔ پاکستان سماجی انصاف، مساوات، اخوت، اجتماعی بھلائی، امن اور مسرت کے حصول کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ آج ہمیں اس نصب العین سے دور پھینک دیا گیا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ چھپا ہوا ہاتھ کس کا ہے جس نے پبلک کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے ذاتی مفادات اور اقتدار کے لئے سازشیں اور مول تول کے رجحانات بڑھ رہے ہیں“۔
No comments:
Post a Comment