About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, August 3, 2011

ترک جمہوریت


آج : بدھ ، 02 اگست ، 2011

ترک جمہوریت
فضل حسین اعوان 
ترکی میں اتاترک کا سیکولرازم بکھرے ہوئے عبرت کا نشاں بن رہا ہے۔ دہریت اپنی موت کی دہلیز پر ہے۔ سیکولرازم کی محافظت کی دعویدار، ضعیف الایمان، جاں نشین فوج مجرم بنی دہریت کے بتوں کو پاش پاش ہوتا دیکھ رہی ہے۔ جج اور جرنیل ملک میں اسلام کو برداشت کرتے ہیں نہ اسلام پسندوں کو۔ عدنان مینڈریس نے ترکی کو اپنے اصل کی طرف لے جانے کی کوشش کی تو انہیں پھانسی دیدی گئی۔ نجم الدین اربکان نے بھی میندریس کی طرح اسلامی پالیسی اپنائی تو ان کو بھی فوج ایک سال بعد ہی گھر کی راہ دکھا دی۔ آج ترکی میں نافذ العمل آئین 1982ءمیں فوج کا دیا ہوا ہے۔ فوج میں بھرتی سے قبل یقینی بنایا جاتا ہے کہ امیدوار میں ایمان و ایقان کی رمق تک نہ ہو۔ اس کے تن من میں اتاترک کا سیکولرازم اور جذبہ دہریت موجزن ہو۔ داڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔ ترکوں کا اصل چونکہ اسلام ہے۔ کسی دل کے نہاں خانے میں اپنے اصل کی چنگاری کا موجود ہونا بعید نہیں۔ یہ کسی فوجی کے دل میں شعبہ بن جائے تو اس کی تپش اولاد کی تربیت سے محسوس کی جاتی ہے۔ لادین فوج نے کئی افسروں کو اس لئے فوج سے نکال دیا کہ ان کے بچے قرآن حفظ کرتے تھے۔ نمازی افسروں کی ترقی پر پابندی ہے، داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ عظیم مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے اپنی تحریک کی ترویج کو خفیہ رکھنے کے لئے خود داڑھی رکھی نہ اپنے مریدوں کو اجازت دی۔ بظاہر ترکی میں جمہوریت تھی لیکن سکہ فوج کا چلتا رہا۔ طیب اردگان حکومت میں آئے۔ عبداللہ گل جیسا ساتھی ملا۔ دونوں نجم الدین اربکان کی پارٹی میں تھے تربیت کا اثر تھا۔ عدنان میندریس اور نجم الدین اربکان جیسی 8 پالیسیاں اپنائیں۔ دہریت سے نفرت، دین سے محبت کا اظہار کیا۔ طیب اردگان اور عبداللہ گل کی بیگمات حجاب اوڑھ کر سرکاری تقریبات میں شرکت کرنے لگیں تو فوج نے بُرا منایا۔ اس پر اعتراض اور احتجاج تک کیا، اسلام پسند پالیسیوں کے نفاذ پر باقاعدہ آنکھیں دکھائیں اور دھمکیاں دیں۔
اپریل 2007ءکے صدارتی الیکشن عبداللہ گل کے انتخاب پر فوج چیں بجیں ہوئی۔ فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ترک افواج اپنے موقف کے اظہار سے نہیں شرمائے گی۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ترک افواج سیکولرازم کے مخلص محافظ ہیں اور ان مباحث کے خلاف ہیں اور اپنی پوزیشن اور موقف ضرورت کے وقت ظاہر کریں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنا کردار ادا کرنے سے نہیں کترائے گی۔ 
اردگان نے اپنے کام سے کام رکھا۔ خاموشی سے اپنے طے شدہ پلان پر عمل پیرا رہے۔ 2003 میں فوج نے تختہ الٹنے کی سازش کی اسے ناکام بنایا۔ فوج کی وارننگ‘ دھمکیوں اور اصلاح کی تنبیہ کو صبر سے سنا۔ حاضری سروس جرنیلوں کے ساتھ ٹکراﺅ سے گریز کیا۔ فروری 2010ءمیں بری‘ بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو ریٹائر ہوتے ہی گرفتار 2003 میں جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ جنرل ددگان، ایڈمرل اوزون اور ایئر چیف مارشل فرطانہ اپنے کرموں کا پھل جیل میں بیٹھے کھا رہے ہیں ان کے ساتھ 40 جرنیلوں سمیت 250 دیگر افسر بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک ائر چیف مارشل فوجی انقلاب لانے کے لئے بے تاب نظر آئے تو حکومت نے ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈال دیا۔ فوجی قیادت اگلے پچھلے گرفتار شدہ فوجی ساتھیوں کی رہائی چاہتی تھی۔ کہا جاتا ہے حکومت کے ساتھ مذاکرات کئے گئے۔ مذاکرات ہمیشہ برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ فوجی سربراہان کی طرف سے چیف آف جنرل سٹاف جنرل اسک کوسیز نے حکومت سے مذاکرات نہیں کئے۔ اپنے ساتھیوں کی رہائی کی درخواست کی تھی بغاوت پر آمادہ ایئرچیف مارشل کو عہدے پر بحال کرنے کی استدعا کی۔ حکومت نے استدعائیں اور التجائیں مسترد کیں تو 28 جولائی چیف آف جنرل سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں نے استعفے دیدئیے۔ بات بغاوتوں اور انقلابوں کے بجائے استعفوں تک آ گئی۔ ترکی کے جرنیلوں نے آئینی اور قانونی طریقہ اپنایا۔ طیب اردگان نے اپنی بہترین صلاحیتوں، حکمت اور دانش سے آمادہ پیکار فوج کو اس کے آئینی اور قانونی حصار میں بند کر دیا۔ اب شاید ترکی میں کبھی فوج انقلاب اور اصلاح کے نام پر بغاوت نہ کر سکے۔ ترکی اور پاکستان کے آمریت و جمہوریت کے حوالے سے حالات کافی ملتے چلتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان طیب اردگان کی حکمتِ عملی سے درس لیں۔ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لئے پکارنے کے بجائے اسے سرحدوں کے محافظ کے طور پر محترم و مکرم رکھیں۔ جہاں انکی بطور خاص ضرورت ہے۔ باالخصوص بھارتی بارڈر پر جو ہمارا ازلی دشمن ہے جس نے تقسیم ہند کو تسلیم کیا ہے نہ قیام پاکستان کو۔ جسے دولخت کرنے کے باوجود چین سے نہیں بیٹھ رہا۔ حکمران بھی خود بکری اور فوج کے شیر ہونے کے تاثر کو ختم کریں۔

No comments:

Post a Comment