جمعرات ، 04 اگست ، 2011
تعلیم
فضل حسین اعوان
قومی وجود کو لاحق امراض و عوارض کے اسباب کا جائزہ لیں تو سرِ فہرست تعلیمی پستی و انحطاط ہے۔ کرپشن، بدامنی، بیروز گاری اور لاقانونیت سمیت تمام مسائل مصائب اور بحرانوں کا حل صرف اور صرف تعلیم کے فروغ میں ہی پوشیدہ و پنہاں ہے۔ حکومتی دعوﺅں کے مطابق پاکستان میں تعلیمی شرح 56 فیصد ہے۔ جعلی سرویز اور بوگس اعداد و شمار سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ شرح خواندگی 100 فیصد قرار دینے سے بھی حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ لاوارث چھوڑا ہوا ہے، اس پر نظر ثانی نہ کی گئی۔ بھرپور توجہ نہ دی گئی تو ہزار سال میں بھی تعلیمی شرح 100فیصد نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ کا تعین شناختی کارڈ کے لیے جمع شدہ فارموں سے کیا جاتا ہے۔ جس نے انگوٹھا لگایا وہ اَن پڑھ، جس نے دستخط ثبت کر دیئے وہ تعلیم یافتہ۔ اگر میٹرک پاس کو ہی تعلیم یافتہ تصور کر لیا جائے تو شرح خواندگی بمشکل 15سولہ فیصد ہو گی۔ ایک طرف تعلیم کے میدان میں ہماری میدان چھوڑ قسم کی ”بے میدانی“ ہے دوسری طرف جمہوریت کا شوق بے پایاں ہے وہ بھی نظام ہے‘ ایک فرد ایک ووٹ۔ آپ ذرا دیہات میں تشریف لے جائیے۔ بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جن کو سو تک گنتی نہیں آتی۔ صدر وزیراعظم اور گورنر و وزیراعلیٰ کے نام سے نابلد‘ کئی کو تو اپنی تحصیل و ضلع کے نام کا بھی نہیں پتہ‘ خاندانی بڑے یا علاقائی وڈیرے نے جس نشان پر مہر ثبت کرنے کو کہہ دیا اس پر جڑ دی۔ اہمیت کے حوالے سے اس شخص کا ووٹ زرداری، گیلانی، نواز شریف، جسٹس افتخار اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے برابر ہے۔ اعلیٰ سطح کی کرپشن معاشرے کی جڑوں تک کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس کے اثرات قومی وجود کے روئیں روئیں تک محسوس ہوتے ہیں۔ انصاف ناپید‘ ظلم رقصاں‘ تاریکیاں اور مایوسیاں عوام کا مقدر بن جاتی ہیں۔ یہ سب تعلیمی تنزل کا آئینہ دار ہے۔ آپ جب تک تعلیم عام نہیں کریں گے۔ ہر فرد کو حقیقی معانی میں پڑھا لکھا نہیں بنائیں گے، جمہوریت اپنے صحیح روپ میں نافذ ہو سکتی ہے نہ ترقی و خوشحالی کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے۔ ترقی و خوشحالی یقیناً تعلیم یافتہ معاشرے سے مشروط ہے۔ تعمیر کے لئے تعلیم ناگزیر ہے۔ اکثر ممالک تعلیم کے زور پر ترقی کی معراج تک پہنچے بعض نے تو تخریبی مقاصد کےلئے بھی تعلیم کو استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال بھارت ہے۔ جس نے تعلیم کو تعذیب و تخریب کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) سکندر خان بلوچ سقوط سے قبل مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ وہ اپنی کتاب ”جانثارانِ وطن“ میں لکھتے ہیں کہ: ”ہماری یکجہتی کے خلاف سب سے اہم ہتھیار مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی تھی، قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی کل آبادی تقریباً چار کروڑ کے لگ بھگ تھی جن میں تقریباً پچاس لاکھ ہندو تھے جو تجارت مالی امور تعلیم اور بقیہ سروسز میں اہم مقامات پر تعینات تھے۔ انہوں نے شروع سے جس تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی وہ مغربی پاکستان کی مخالفت تھا کیونکہ اس کا رُخ کلکتہ کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ اسلام کی بجائے بنگالی کلچر کو تعلیم کا اہم موضوع بنایا گیا۔ تعلیمی نصاب میں ایسی ایسی لغو قسم کی مثالیں شامل کی گئیں جو شروع سے ہی بچوں کو پاکستان کا مخالف بنا دیں۔ مثلاً ایک دفعہ میرے ایک دوست نے تیسری جماعت کے حساب کی کتاب دکھائی جس میں کئی ایسے سوالات تھے جو بنگالی بچوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے کے لیے کافی تھے۔ ذرا اس مثال پر غور کریں ۔ (الف): پنسل بنانے کی لکڑی مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتی ہے لیکن پنسلیں مغربی پاکستان میں بنتی ہیں، وہاں ایک پنسل دو پیسے میں بنتی ہے اور یہاں ایک آنے میں فروخت ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان وہاں سے سالانہ تقریباً دس کروڑ پنسلیں منگواتا ہے۔ بتائیے ایک سال میں مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان سے کتنا زیادہ پیسہ وصول کیا؟ (ب): یہی پنسل اگر ہم کلکتہ سے منگوائیں تو ہمیں یہاں دو پیسے میں پڑے گی۔ اگر ہماری ضرورت دس کروڑ پنسلیں سالانہ ہوں تو بتائیں ایک سال میں مشرقی پاکستان کتنی رقم کی بچت کرے گا؟
اس قسم کے کئی اور سوالات تھے، جب چھوٹے معصوم بچوں کے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات ڈالے جائیں گے تو وہ صحیح پاکستانی کیسے بنے گا وہاں ہندو اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ ایک مرحلے پر راجشاہی یونیورسٹی کے اسلامیات کے شعبے کا سربراہ ہندو تھا۔ ہمیشہ چھوٹے چھوٹے واقعات طوفانوں کو جنم دیتے ہیں جو بعد میں تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہی کچھ وہاں بھی ہوا۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم میں تبدیلی اچانک شروع نہیں ہوتی اس کی ابتدا ہمیشہ سکولوں سے ہوتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ:
A man is what his mind is & his mind is what his education makes it.
1971ءمیں ان لوگوں نے وہی کچھ کیا جو کچھ ان کے نظام تعلیم نے انہیں بنایا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ کسی قوم کی تقدیر نہ بڑی فیکٹریوں میں بنتی ہے نہ سیاسی ڈرائنگ روموں میں اور نہ ہی جاگیرداروں کی جاگیروں پر بلکہ ان ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں بنتی ہے جنہیں ہم سکول کہتے ہیں۔ معاشرے کو تعلیم یافتہ بنائے بغیر ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے۔ جمہوریت بھی اصل شکل میں تبھی نافذ ہو سکتی ہے جب ہر پاکستانی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو۔ (جاری)
No comments:
Post a Comment