جمعۃالمبارک ، 05 اگست ، 2011
تعلیم
فضل حسین اعوان
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہر پاکستانی کا تعلیم یافتہ یا خواندہ ہونا ملکی مفاد میں، لیکن تعلیم کو مخصوص طبقات تک محدود رکھنا سیاستدانوں کے مفاد میں ہے۔ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت تعلیمی شعبے کو یکساں نظر انداز کیا گیا ہے۔ نادانستہ نہیں، دانستہ۔ بالکل دانستہ۔ ہر دور میں ملک کو چوسا ”چرونڈا“ اور بھنبھوڑا گیا۔ کسی نے بھی قائد کے ملک کو نچوڑنے، مروڑنے اور متعدد نے تو توڑنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کیا یہ پسند کریں گے کہ پورا معاشرہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر باشعور ہو جائے؟ ایک فلاحی ریاست میں تعلیم صحت اور روزگار فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے۔ پاکستان تو اسلامی جمہوریہ بھی ہے جس میں عوام کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کی حکومت پر ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ جن سہولیات پر عوام کا حق ہے ہر دور کے حکمران مراعات کا نام دے کر عوام کو فراہم کرکے احسان جتاتے ہیں۔ جس علاقے میں ایم این اے، ایم پی اے گلیاں، نالیاں، سڑکیں بنوا دیتا ہے۔ تھانے کچہری میں اپنے حلقے کے عوام کے شانہ بشانہ ہوتا ہے۔ علاقے میں نئے سکول تعمیر کراتا ہے۔ پرانے اپ ڈیٹ کراتا۔ کہیں بجلی، کہیں گیس لگوا دیتا ہے اور کہیں ڈسپنسریاں کھلوا دیتا، وہ لوٹ مار کرے، بدمعاشی یا عیاشی، اس کی علاقے مےں جے جے کار ہے۔ الیکشن آسانی سے جیت جاتا ہے۔ اپنے حقوق کے شعور اور حصول کے طریقہ کار سے لاعلمی کا فائدہ چالاک سیاستدان تب تک اٹھاتا رہے جب تک سادہ لوح لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہو جاتے۔ اس لیے دیدہ دانستہ تمام سیاستدان اپنی مراعات میں اضافے کے بعد کسی نکتے پر متفق ہیں تو قوم کو تعلیم سے دور رکھنے میں۔ واویلا بڑاکیا جاتا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے فروغ میں بڑی سرگرم نظر آتی ہیں۔ عملاً نتیجہ صفر ہے۔ تعلیم کے لیے مجموعی بجٹ کا 2 فیصد سے زائد نہیں۔ اس پر بھی بیورو کریسی اورعوامی نمائندے ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمشن نے کام شروع کیا۔اس کے توسط سے آج بھی ہزاروں سکالربیرون ممالک پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ بھارت کو پاکستان کے ہائرایجوکیشن کمشن کی اعلیٰ کارکردگی کا علم ہوا تو بنیا حکومت ہِل کر رہ گئی۔ اُدھر وہ ابھی اس کا توڑ کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔کوئی سازشی ایجنڈہ ترتیب دینے کی تیاری کر رہے تھے۔اِدھر ا س کا ایجنڈا مکمل کر دیا گیا۔ ایچ ای سی نے سیاستدانوں کی جعلی ڈگریاں پکڑیں تو جعلسازوں نے ہائر ایجوکیشن کو ہی برباد کرکے رکھ دیا۔ اس بربادی میں ہو سکتا ہے دشمن کا ہاتھ نہ بھی ہو البتہ بھارتی بینئے نے سُکھ کا سانس ضرور لیا ہو گا۔ پاکستان اسے سائنسی تحقیقی اور ترقی کے آسمان پر درخشندہ ستارہ نظر آ رہا تھا۔ اب وہ شہاب ثاقب کی طرح زمین پر آ گرا ہے۔
مہاتیر محمد سے ملاقات میں ہائر ایجوکیشن کے سابق چیئر مین عطاءالرحمن نے ملائشیا کی تیزی سے ترقی کا راز پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیس سال توجہ تعلیم پر رہی، قومی بجٹ کا 30 فیصد تک تعلیم کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے۔ ملک کو تعلیم یافتہ بنائیں گے۔ ٹونی بلیر سے کسی نے پوچھا آپ کی تین ترجیحات کیا ہیں تو ان کا جواب تھا کہ تعلیم، تعلیم اور تعلیم۔ 1867ءمیں 15 سال کی عمر میں شہنشاہ موتسو ہیتو نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے جاپان کی کایا پلٹنے کی منصوبہ بندی کے لیے رائے مانگی۔ اکثر نے تعلیم کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا۔ شہنشاہ نے اتفاق کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لیے وسائل کے منہ کھول دیئے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرکے دنیا کے جس خطے سے دستیاب تھے اساتذہ جاپان میں لائے گئے۔ جاپانی طلباءکو بیرون بھجوایا گیا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہر تیسرا سٹوڈنٹس جاپانی تھا۔ جاپان نے اگر دنیا کی معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم کی تو تعلیم کو پہلی ترجیح دینے کی بدولت۔ حیران کن امر ہے کہ 1904ءمیں جاپان نے روس کو جنگ میں شکست دی۔ اس فتح میں بھی جاپانیوں کی جدید ٹیکنالوجی اور علوم پر دسترس کا حامل ہونا نمایاں پہلو تھا۔ ہم نے تعلیم کے حوالے سے نبی کریم کا فرمان نظر انداز کر دیا کہ تعلیم مرد و زن پر فرض ہے۔ تعلیم کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاﺅ۔ مروجہ جمہوریت میں معاشرہ صدیوں میں بھی خواندہ نہیں ہو سکتا۔ معاشرہ خواندہ نہیں ہو گا تو یہی جمہوریت چلے گی جس میں کرپٹ ترین لوگ اعلیٰ عہدوں پر چہرے بدل بدل براجمان رہیںگے۔ موسٹ اپر کلاس کرپٹ ہو گی تو کرپشن کا ناسور نیچے تک بلا روک ٹوک پھیلتا رہے گا۔ ظالم حکمران ہوں گے تو معاشرے میں انصاف کی توقع عبث ہے۔ ذرا سوچئیے ہر پاکستانی کو پڑھا لکھا کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟ان حالات میں جبکہ تعلیم کے فروغ کی چابی ان ہاتھوں میں ہے جن کو پڑھا لکھا معاشرہ سوٹ نہیں کرتا۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment