اتوار ، 14 اگست ، 2011
اتوار ، 14 اگست ، 2011
ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟
فضل حسین اعوان
آج ہماری آن بان، رفعت و حرمت، جاہ و حشم، منصب و منزلت، شان و شوکت، سب پاکستان کی مرہون منت ہے۔ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان کا فاقوں سے مرن اور ہر نعمتِ خداوندی سے سرفراز اپنا بانکپن دیکھئے۔ ہم میں سے بہت سے شکوہ سنج رہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ ان کے ایک سوال کے جواب میں دو سوال ہیں۔ پاکستان نے ہمیں کیا نہیں دیا؟ اور ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟ پاکستان نے ہمیں پاکستانیت، ایک عظیم پہچان دی۔ آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا۔ عزت و آبرو دی اور سب سے بڑھ کر جان و مال کا تحفظ دیا۔ بھارت میں کتنے جج اور جرنیل مسلمان ہیں۔ کبھی کسی مسلمان کو آرمی، فضائیہ اور بحریہ کا چیف بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ کتنے مسلمان انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ ہمارے سابق وزرائے اعظم کا شمار قطار نہیں بھارت میں ایک بھی مسلمان وزیراعظم نہیں بنا۔ ابوالکلام آزاد کانگریس کے سربراہ اور عبدالکلام آزاد بھارت کے صدر ضرور بنے۔ کیا ان کی حیثیت اہمیت اور انفرادیت جناب آصف علی زرداری جیسے پارٹی سربراہ اور صدر مملکت جیسی رہی تھی؟ دونوں آزادوں کو ہندو کی غلامی کے باعث نمائشی عہدے دئیے گئے تھے۔ دنیا کو دکھانے اور جعل سازی سے باور کرانے کے لئے کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ دنیا کشمیر پر نظر دوڑائے یہاں سات لاکھ بھارتی سفاک سپاہ مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہا رہی ہیں۔ صرف 1990ءسے چالیس ہزار مسلمانوں کو قتل کر چکی ہے۔ جہاں اکابرین مسلم کی قبائیں محفوظ ہیں نہ کشمیر کی بیٹیوں کے آنچل، عبایائیں اور ردائیں۔ یہ کہنے والے ”پاکستان نے ہمیں کیا دیا“ ذرا غور فرمائیں، تصور میں لائیں بھارت میں ہوتے تو کوئی گجرات کے فسادات میں مر رہا ہوتا کوئی انتہا پسند متعصب اور روسیاہ ہندوﺅں کی لگائی آگ میں جل رہا ہوتا۔ آج جو لوگ ریلوے کی وزارت تک پہنچے، چیئرمین جی ایم بنے ڈائریکٹر لگے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی قلی ہوتا کوئی ٹی ٹی کوئی بوگیاں چمکانے اور کوئی انجنوں کو دھکا لگانے والا ہوتا۔ پاکستان کی بدولت جج اور جرنیل بننے والوں میں سے کئی ہرکارے اور اردلی ہوتے۔ کہاں ہوتے آج پاکستان کے بڑے بزنس مین، پہلے دوسرے تیسرے نمبر پر آنے والے امیر ترین؟
پاکستان یقیناً نظیر کمالِ جنت، تنویر جمال عظمت اور تصویر مثالِ رفعت ہے۔ پاکستان نے تو ہمیں سب کچھ دیا۔ اگر کچھ محرومیاں، بے انصافیاں، وبال و زوال مسائل اور مصائب ہیں تو وہ پاکستان کے دئیے ہوئے نہیں، پاکستان کی بدولت تختِ شاہی تک پہنچنے والوں کے دئیے ہوئے ہیں۔ جو خود کو منزہ عن الخطا سمجھتے ہیں۔ دراصل یہی وجہ ہر وبائ، ابتلا اور کرب و بلا ہیں۔ جو ہمارے ہی ہاتھوں کے تراشے ہوئے صنم ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ حضرت قائداعظم سے زندگی اور ان کے بعد قائد کے جاں نشینوں نے ان کے مشن سے وفا نہ کی۔ قائداعظم چند سال مزید زندہ رہ جاتے یا ان کے ساتھی قائد کے نقشِ قدم پر چلتے تو پاکستان یقیناً قیام کے چند سال بعد ہی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو جاتا۔ بعد میں آنے والے قرض کرپشن دھن دولت سینتنے اور سمیٹنے میں ایسے مگن ہوئے کہ قوم و ملک کے لئے جبر، قہر اور جفا بن گئے۔
قیامِ پاکستان کی پہلی سالگرہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا ”ہم نے سال بھر کے حوادث کا مقابلہ بڑے عزم و حوصلہ سے کیا ہے۔ دشمن کی کارروائیوں، بالخصوص مسلمانوں کو بحیثیت قوم ختم کرنے کی منظم سازشوں کے خلاف جو کامیابی ہم نے حاصل کی، وہ حیرت انگیز ہے.... اس نوزائیدہ مملکت کا پیدا ہوتے ہی دیگر طریقوں سے گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش میں ہمارے دشمنوں کو یہ اُمید تھی کہ اُن کی دلی خواہشات اقتصادی چالبازیوں سے پوری ہو جائیں گی، پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا اور دشمن کی آتش و شمشیر جو مقصد حاصل نہیں کر سکیں وہ مملکت پاکستان کی مالی تباہی سے حاصل ہو جائے گا لیکن ہماری برائی چاہنے والے نجومیوں کی تمام پیش گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں اور ہمارے پہلے ہی بجٹ میں تجارت کا توازن ہمارے حق میں تھا، بچت ہوئی اور اقتصادی میدان میں ترقی کا رجحان شروع ہوا“۔ قائداعظم نے جس عزم کا اظہار کیا تھا کیا ہم اس پر کاربند رہے؟ ان کی شروع کی ہوئی کامیابیوں کو اسی ٹریک پر اُسی سپیڈ کے ساتھ جاری رکھ سکے؟ نہیں باالکل نہیں!
قائداعظمؒ نے فروری 1948ءمیں افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”ہم نے پاکستان کی آزادی کی جنگ جیت لی ہے مگر اُسے برقرار رکھنے کیلئے اور مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے کی سنگین ترین جنگ ابھی جاری ہے۔ اگر ہمیں ایک بڑی قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنی ہو گی کیونکہ فطرت کا اٹل قانون یہی ہے کہ برائے اصلاح، ہمیں خود کو اس نئی آزادی کا اہل ثابت کرنا ہو گا“۔
پاکستان کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے قائد محترم نے جس سنگین جنگ کو جاری رکھنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے پر زور دیا۔ وہ جنگ ہم ہار گئے۔ ہم نے سرینڈر کر دیا۔ پاکستان کے اس حصے کی حفاظت نہ کر سکے جہاں سے مسلم لیگ کے قیام کی صورت میں پاکستان کا خمیر اٹھا۔ پاکستان چونکہ مملکتِ خداداد ہے اس لئے قائم ہے اور انشاءاللہ تاقیامت رہے گا۔ ورنہ ہماری قیادتوں نے خواہ وہ جمہوریت کی گود میں پھلی پھولی ہوں، آمریت کی آغوش میں پلی بڑھی ہوں یا مجسم آمریت ہوں خود کو آزادی کا اہل ثابت نہیں کیا۔
No comments:
Post a Comment