About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, August 7, 2011

اسیران میانوالی کی فریاد


 اتوار ، 07 اگست ، 2011

اسیران میانوالی کی فریاد

فضل حسین اعوان 
حرمتِ حرف اور تقدیسِ لفظ کیا ہے ؟۔ جو کہو سوچ سمجھ کر۔ جو کہہ دیا پھر اس میں مزید غور وفکر کی گنجائش نہ رجوع کی ۔اپنے کہے ، وعدے یا معاہدے سے اگر کوئی مکرتا ہے تو اس کے لئے جھوٹا ‘ فریبی‘ دغا باز ‘ عیار و مکار جیسے القاب والفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے ہی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو زبان دے کر جان تو دے دیدیتے ہیں ۔ اپنے قول سے نہیں پھرتے۔ آ ج بدقسمتی سے ایسے لوگوں کے سر پر چودھراہٹ کی پگڑی بندھی نظر آتی ہے جو وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔یہ سیاست نہیں منافقت ہے ۔ہم ایسی سیاست کے اسیر نہیں جو اخلاقیات کو تاریکیوں اور انسانیت کو گمراہیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے ۔ ہم اس نبیﷺ کے امتی ہیں جو ایک یہودی کے گھر کے باہر تین دن اس لئے کھڑے رہے کہ اس نے کہا تھا کہ ابھی آیا اور پھر بھو ل گیا تھا۔ کوئی میرا آئیڈل ہے یا آپ کا یا کسی کا بھی‘ اپنے وعدے سے مکرتا ہے تو قابل نفرت تو ہے ہی قابلِ گرفت‘ اور قابلِ احتساب بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے وعدوں معاہدوں اور دعو ¶ں کا جو حشر کر چکی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کی سب سے بڑی ناقد مسلم لیگ ن رہی ہے۔ آج بات مسلم لیگ ن کے وعدے اور پھر اس سے مکر جانے کی کریں گے جس سے اس کی ساکھ بری طرح متاثرہو رہی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے حاجی فلک شیر عوامی صدر انجمن تاجران میانوالی کا اخبارات اور چیف جسٹس سپریم کے نام لکھا گیا خط مختصراً ملاحظہ فرمائیے تاکہ معاملہ سمجھنے میں آسانی رہے۔
”ضلع میانوالی اس وقت نیشنل گرڈ کو 1000 سے زائد میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے اور تقریباً 700 میگاواٹ کے منصوبے زیر تکمیل ہیں مگر ضلع میانوالی کے گلی کوچوں اور کھیتوں کھلیانوں میں اندھیروں کا راج ہے، یہاں 16 سے 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کے عذاب نے نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا‘ لوگوں میں احساس محرومی بڑھا اور یہاں کے لوگوں نے میانوالی کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کے لئے ایک غیر سیاسی تحریک ”تحریک حقوق میانوالی“ کی بنیاد رکھی، تحریک حقوق میانوالی کے زیراہتمام 4 جولائی کو میانوالی کے جہاز چوک پر دھرنا، چشمہ کی جانب علامتی لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ 4 جولائی کے دن میانوالی کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جہاز چوک پر جمع ہوئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 50 ہزار لوگ اس احتجاجی دھرنے میں شریک تھے جو تمام کے تمام نہتے اور انتہائی پر امن تھے۔ مقررین نے 2 گھنٹے تقاریر کیں اورچشمہ کی جانب علامتی لانگ مارچ چل پڑا۔ یہ پر امن عوامی مارچ ابھی صرف نصف کلومیٹر کا جس پر فائرنگ اور بدترین آنسو گیس کے شیل برسائے مگر شرکاءپیدل سفر طے کرتے ہوئے تقریباً 4 کلومیٹر دور حسن چوک پر پہنچ گئے جہاں جلوس کے قائدین اور ضلعی انتظامیہ کے افسران، ڈی پی او اور ڈی سی او میانوالی کے درمیان مذاکرات ہوئے قائدین نے 20 جولائی تک اپنا احتجاجی پروگرام مو ¿خر کرنے کا اعلان کر دیا۔ قائدین احتجاجی پروگرام ختم کرنے کااعلان کر کے جیسے ہی واپس پلٹے ڈی سی او اور ڈی پی او میانوالی کے حکم پر پولیس نے امن شہریوں پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ سے 2 شہری شہید ہو گئے اور 30 کے قریب زخمی ہو گئے جو ابھی تک ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ )میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین اور پولیس کے تصادم میں ڈی پی او ڈی سی او تین ڈی ایس پیز سمیت 20 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پولیس سے متعدد رائفلیں بھی چھینی گئیں) سر شام میانوالی پولیس نے 6 ہزار 870 افراد کے خلاف تھانہ صدر میانوالی میں مقدمہ نمبر 239 درج کر لیا جس میں 67 افراد نامزد ہیں۔ اس ساری صورتحال پر وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا اور سینئر وزیر اور مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جس کے رکن صوبائی وزیر زکوٰة وعشر ملک ندیم کامران اسی رات میانوالی پہنچے، انہوں نے ضلعی انتظامیہ، آر پی او سرگودھا اور کمشنر سرگودھا کے ساتھ میٹنگز کیں اور اگلے دن 5 جولائی کو کینال ریسٹ ہاﺅس میں تحریک حقوق میانوالی کے قائدین اور صوبائی وزیر کے درمیان مذاکرات ہوئے، ان کی کامیابی کے بعد صوبائی وزیر اور تحریک حقوق میانوالی کے قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جو مختلف چینلز پر براہ راست نشر کی گئی جس میں صوبائی وزیر نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ”4 جولائی کے واقعات میانوالی کی ضلعی انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت کا نتیجہ ہیں، ڈی سی او اور ڈی پی اومیانوالی اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں، اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے گی اور ذمہ داروںکے خلاف مقدمات درج ہوں گے، یہ انکوائری کمیٹی ڈی سی او اور ڈی پی اومیانوالی کے فوری تبادلوں کی سفارش وزیراعلیٰ سے کرے گی جو اس وقت ملک سے باہر ہیں، ان کی واپسی کے بعد وہ اس پر فیصلہ کریں گے، شہید ہونیوالے شہریوں اور زخمیوں کی مالی امداد کے لئے پنجاب حکومت سے سفارش کی جائے گی اور پولیس نے شہریوں کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہے وہ معطل رہے گی اور کسی بھی فرد کو گرفتار نہیں کیاجائیگا اور میںنے یہ حکم وزیراعلیٰ پنجاب اور حکومت پنجاب کے نمائندہ کے طور پر پولیس کی اعلیٰ انتظامیہ اور دیگر اعلیٰ حکام کو دے دیا ہے، اور انکوائری کمیٹی میانوالی کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلوانے کے لئے پنجاب حکومت وفاقی حکومت سے بات کرے گی“۔صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے جو کچھ کیا اس پر عمل ہونا چاہئے تھا لیکن ”روزنامہ نوائے وقت“ سے وابستہ صحافی رانا محمد ادریس پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق امیدوار قومی و صوبائی اسمبلی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میانوالی کے معزز رکن محمد سردار بہادر خان المعروف بابر خان اور حاجی فلک شیر کو پولیس نے گرفتار کرکے دہشت گردی کے مقدمات درج کر لئے۔ تینوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آج یہ تینوں میانوالی جیل کے عقوبت خانے میں بند ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف عموماً حبیب جالب کی نظم کے اشعار گنگناتے ہیں کبھی کبھی تو سرِ محفل سر میں بھی گا کر سناتے ہیں؛ 
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
میاں شہباز شریف کے وزیر ندیم نے میاں صاحب کی طرف سے میانوالی جا کر جو وعدے کیئے ان پر من و عن عمل ہونا چاہئے تھا۔ پولیس وہاں جو کچھ بھی کر رہی ہے ممکن نہیں کہ سب اپنی مرضی کر رہی ہو کیا ندیم کامران نے سب کچھ مصلحت کے تحت کیا تاکہ لوگ گھروں کو جائیں تو چند ایک کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ہزاروں افراد پر مقدمہ درج کرنے کا سوائے بلیک میلنگ کے اور مقصد کیا ہے۔ اگر کامران نے وہاں جاکر نیک نیتی سے مذاکرات کئے۔ انہوں نے جو وعدے کئے ان پر عمل نہیں ہوا توکم از کم ان کو تو مستعفی ہو کر سرخرو ہو جانا چاہئے۔ وزیرِاعلیٰ صاحب جس صبحِ بے نور کو نہ ماننے کی بات کرتے ہیں تو ان کو ایسی صبح کو نہیں ماننا چاہئے جو خواہ کہیں اور سے ابھرے یا اپنے یا اپنوں کے آنگن سے طلوح ہو۔ صحافی کا ہتھیار قلم اور کیمرہ ہوتا ہے۔ اس سے کیا دہشتگردی ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اہلیانِ میانوالی سے جو وعدہ کیا اسے ایفا کرے اور نوائے وقت کے نمائندے رانا ادریس سمیت دیگر دو بے گناہ معززین کو فوری رہا کیا جائے۔


No comments:

Post a Comment